فاٹا کے لیے بارش کا پہلا قطرہ

255

پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں نو منتخب چیئرمین محمد صادق سنجرانی کی صدارت میں اجلاس نے عدالتوں کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھانے کا بل منظور کر لیا ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) ایک عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں بھی پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح عدالتوں سے رجوع کرنے، اپیل کرنے اور عدالتوں کے ذریعہ انصاف حاصل کرنے کا حق دیا جائے۔ لیکن ان کا یہ مطالبہ غیر ضروری طور پر ٹالا جاتا رہا ہے اور انہیں پولیٹیکل ایجنٹ کے رحم و کرم پر رکھا گیا ہے۔ انگریز کے دور کے مسلط کردہ یہ پولیٹیکل ایجنٹ پاکستان بننے کے بعد بھی قبائلی علاقوں پر مسلط ہیں اور انہی کا فرمان حکم اور عدالت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو پاکستانی کی شناخت نہیں مل سکی اور وہ اپنے آپ کو اجنبی سمجھتے رہے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے فوج کے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کا سامنا بھی کیا۔ عام تاثر یہ دیا جاتا رہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے لوگ محب وطن نہیں لیکن انہیں وطن کی شناخت ہی کب دی گئی۔ چنانچہ وہاں منفی سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آئیں خاص طور پر طالبان پاکستان کے نام سے تخریب کاری کرنے والے گروہوں نے اپنے قدم جما لیے۔ تخریب کاروں نے اپنا دائرہ سوات تک پھیلا دیا تھا چنانچہ فوج نے وہاں بھی آپریشن کر کے علاقے کو دہشت گردوں سے صاف کیا۔ افغانستان سے آنے والے تخریب کاروں کو بھی فاٹا میں چھپنے میں آسانی تھی۔ ناراض طبقہ بھی ان کا معاون تھا۔ تاہم پاک فوج نے تخریبی عناصر کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا ہے۔ ایک عام قبائلی کو یہ شکایت ہے کہ اسے اپنے علاقے میں داخل ہونے کے لیے قدم قدم پر تلاشی اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اس کی انا مجروح ہوتی ہے۔ لیکن قبائلی علاقے جن حالات سے گزرے ہیں ان کے پیش نظر قدم قدم پر بنی ہوئی چوکیاں خود ان کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ البتہ چوکیوں پرمتعین عملے کو انتہائی شرافت اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہ تاثرنہیں دینا چاہیے جیسے وہ آقا ہیں اور دوسرے ان کے غلام۔ جہاں تک قدم قدم پر چوکیوں اور جانچ پڑتال کا تعلق ہے تو یہ اسلام آباد میں داخلے کے وقت بھی نظر آتا ہے۔ بلوچستان میں اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ پاکستان کی کچھ اہم سیاسی و سماجی شخصیات نے اسے اپنی بے عزتی قرار دے کر احتجاج بھی کیا تھا کہ فوج کا ایک معمولی اہلکار ارکان قومی اسمبلی سے بھی باز پرس کرتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ عام افراد کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ کراچی جیسے شہر میں بھی زیادہ تر رات کو پولیس اور رینجرز گاڑیاں روک کر اپنی تسلی کرتے ہیں۔ یہ سوچ لینا چاہیے کہ عوام کی حفاظت ہی کے لیے یہ اہلکار اپنی راتیں کالی کرتے ہیں تاہم رویہ توہین آمیز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ان کی تربیت بہت ضروری ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں، آقا نہیں۔ بہرحال فاٹا کے عوام کو عدالتوں سے رجوع کرنے کی سہولت تو مل ہی گئی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ایک عرصے سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فاٹا کو باقاعدہ پاکستان میں شامل کیا جائے۔ اس کے لیے تجاویز سامنے آئی ہیں کہ یا تو فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنا دیا جائے یا ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے۔ جمعیت علماء اسلام اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس کی بڑی شدت سے مخالفت کر رہی ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو جب سینیٹ میں مذکورہ بل پیش ہوا تو اس موقع پر بھی جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمن گروپ) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ سے واک آؤٹ کر دیا۔ ان کی عدم موجودگی میں بل آسانی سے منظور ہو گیا اور چیئرمین نے بھی ان کو منا کر واپس لانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی بہت سینیئر سیاستدان ہیں لیکن فاٹا کے حوالے سے ان کے نظریات یا ان کے خدشات قابل فہم نہیں ہیں۔ یقیناً ان کے پاس مخالفت کی وجوہات ہوں گی لیکن سینیٹ میں موجود تمام ارکان نے بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور فاٹا کے عوام کو مبارک باد دی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے بھی خیر مقدم کیا ہے اور اسے انقلابی اصلاحات کی شروعات قرار دیا ہے جس سے پولیٹیکل انتظامیہ کی بادشاہت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی نے ایف سی آر کے خاتمے اور قبائلی عوام کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ سراج الحق نے اسے بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا ہے۔ ان قبائل کو قائداعظم نے پاکستان کا محافظ قرار دیا تھا لیکن انہیں ’’مین اسٹریم‘‘ سے کاٹ کر رکھا گیا۔ اس زیادتی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔