شاہنواز فاروقی
تجزیہ کیا جائے تو تعلیم نسواں کے سلسلے میں بھی سرسید کا رویہ قدامت پسندانہ تھا۔ سرسید کا خیال تھا کہ خواتین کو جو جدید تعلیم دی جارہی ہے صدیوں تک اس کا کوئی مصرف نہیں ہوگا۔ مگر سرسید کے انتقال کے صرف سو سال بعد برصغیر کی ہندو اور مسلم خواتین بھی وہی کچھ بننے لگیں جو مغرب کی خواتین بن رہی تھیں۔ سرسید کی بصیرت اتنی معمولی تھی کہ وہ صرف سو سال آگے نہ دیکھ سکے۔ وہ جدیدیت، جدیدیت بہت کرتے تھے مگر انہیں کیا ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ جدیدیت کا مغرب اپنی اصل میں کیا ہے؟ اور وہ دنیا کا کیا حال کرنے والا ہے۔ بہرحال سیکولر اور لبرل افراد کے سفید جھوٹ کے برعکس سرسید مسلم خواتین کو جدید تعلیم مہیا کرنے کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں مسلم خواتین کو جو ’’حتمی مشورہ‘‘دیا وہ انہی کے الفاظ میں یہ تھا۔
سرسید نے فرمایا۔
’’عورتوں کی تعلیم نیک اخلاق، نیک خصلت، خانہ داری کے امور، بزرگوں کا ادب، خاوند کی محبت، بچوں کی پرورش، مذہبی عقاید کا جاننا ہونی چاہیے۔ اس کامیں حامی ہوں۔ اس کے سوا اور کسی تعلیم سے میں بیزار ہوں‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 211)
سرسید کے ان خیالات کو دیکھا جائے تو آج کل کے ملّا، مولوی اور راسخ العقیدہ کہلانے والے مذہبی لوگ سرسید سے کئی لاکھ گنا زیادہ ’’جدید‘‘ ہیں اس لیے کہ وہ اپنی بچیوں کو ان تمام علوم و فنون کی تعلیم دلا رہے ہیں جن کو سرسید خواتین کے لیے زہر سمجھتے تھے۔
سرسید کی ’’مذہبیت‘‘ کی سب سے بڑی علامت ان کی طویل و عریض گھنی ڈاڑھی ہے۔ یہ ڈاڑھی نہیں ہے سرسید کا پردہ ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سرسید کی ڈاڑھی بھی ’’مذہبی معاملہ‘‘ نہیں بلکہ ’’قدامت کا قصہ‘‘ ہے۔ ذرا ڈاڑھی کے سلسلے میں سرسید کے خیالات ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ڈاڑھی۔۔۔ بشرطیکہ وحشیانہ پن سے نہ رکھی جائے‘ تہذیب کے برخلاف نہیں ہے چناں چہ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں اشخاص، جو نہایت مہذب قوم کے ہیں، ڈاڑھی رکھتے ہیں۔ اور ہمارے ملک کے بھی خوب صورت گورے رنگ کے چہروں پر، بشرطیکہ گورا رنگ ہو، کالی ڈاڑھی نہایت خوب صورت اور بھلی معلوم ہوتی ہے (ہاں، جب سفید ہوجائے تو منڈانے کے قابل ہوجاتی ہے بشرطیکہ منہ کی جھریاں اور گالوں کے گڑھے اور منہ کا پوپلا پن صورت کو بدنما نہ کردے)۔ اس کے سوا منہ کی رونق اور شجاعت و بہادری و رعب اس سے پایا جاتا ہے۔ پس اس کا رکھنا یا منڈانا ہماری بحث سے خارج ہے اور ہم اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ ہم قطعاً ان مسائل سے جن کو مانع تہذیب نہیں سمجھتے، بحث نہیں کرتے۔ اگر ڈاڑھی منڈانی ناجائز ہو تو اس سے ہمارا کچھ حرج نہیں‘ اگر جائز ہو تو ہمارا کچھ حرج نہیں لیکن اگر ڈاڑھی کو ایک ٹٹی بنایا جائے جس کی اوجھل شکار کھیلا جائے تو اس سے منڈانا ہی بہتر ہے‘‘۔
مسلمانوں کے لیے ڈاڑھی سنت رسولؐ اور تکمیل ایمان کی ایک علامت ہے۔ مگر سرسید نے ڈاڑھی سنت رسولؐ سمجھ کر نہیں رکھی تھی۔ ان کے لیے ڈاڑھی بھی ایک ’’رواج تھی۔ پھر سرسید نے کچھ ’’مہذب قوم کے لوگوں‘‘ یعنی ’’یورپی باشندوں‘‘ کو بھی ڈاڑھی رکھتے ہوئے دیکھ لیا۔ چناں چہ ڈاڑھی پر ان کا ’’ایمان‘‘ مزید پختہ ہوگیا۔ لیکن اس سلسلے میں انہوں نے ’’گورے رنگ‘‘ کی شرط بھی عاید کردی اور فرمایا کہ ڈاڑھی گورے رنگ پر خوبصورت اور بھلی معلوم ہوتی ہے۔ یعنی گندمی، کالے اور پیلے رنگ کے لوگوں کے لیے ’’سنت کی پیروی‘‘ ضروری نہیں۔ اس کو کہتے ہیں کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ لوگ سرسید کی ڈاڑھی کو ’’مذہبی شے‘‘ خیال کرتے ہیں مگر معلوم ہوا کہ ڈاڑھی تو گورے لوگوں کی خوبصورتی کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ پھر ’’نہایت مہذب قوم‘‘ کے لوگ بھی ڈاڑھی رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے ’’شاعر اعظم‘‘ رابندا ناتھ ٹیکور کو ادب کا نوبل انعام ملا تو ساری دنیا میں ان کی ’’روحانیت‘‘ کے چرچے ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ یہ چرچے انگریزی کے عظیم ڈراما نگار برنارڈ شا تک بھی پہنچے۔ چناں چہ ربندار ناتھ سے ملنے ہندوستان آئے۔ روایت ہے کہ برنارڈ شاٹیگور سے مل کر واپس جانے لگا تو ہوائی اڈے پر صحافیوں نے شاسے پوچھا کہ آپ کا ’’گرودیو‘‘ یعنی رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے میں کیا خیال ہے۔ شا کی ذہانت اور حس مزاج بے مثال تھی۔ اس نے سوال سن کر ایک لمحہ تو قف کیا اور پھر کہا۔
Shave him he is a fool
شا سرسید سے ملتا تو شاید کہتا
Shave him he is Secular۔