میں آج ان معصوم پھولوں کے لیے آواز اٹھانا چاہوں گی جن کا کوئی قصور نہیں، جو اپنے بچپن میں ہی بچپن کو کھو دیتے ہیں یا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جی ہاں! میں یہاں ان معصوم پھولوں کی بات کررہی ہوں جن کو درندے جیسے لوگوں نے اپنی ہوس پوری کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ نہ جانے ان درندوں کو معصوم بچوں کی زندگی سے کھیل کر کیا ملتا ہے، ان پر تشدد کرکے نہ جانے وہ اپنی سزا کیوں بھول جاتے ہیں، چاہے وہ سزا دنیا کی ہو یا آخرت کی۔ ہمیں یاد ہیں آج بھی وہ بچیاں جو کام کی غرض سے گھروں سے نکلتی ہیں، گھروں میں دن بھر کام کرتی ہیں، اور ذرا سی غلطی پر ان کو جلا کر اذیت دی جاتی ہے اور پھر راتو ں کو انہی بچیوں سے اپنی ہوس کو پورا کرتے ہیں۔ نہ جانے ایسے درندے اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کا کیوں نہیں سوچتے، دنیا تو مکافات عمل ہے پھر وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں اور کیوں معصوم پھولوں کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں اس لیے کہ وہ بچیاں غریب ہیں؟ کام کی غرض سے نکلتی ہیں اس لیے؟ جی نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے، یہ معصوم جانیں ہماری طرح ہی کی تو ہیں، آج ان کے ساتھ ہے، کل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
میری حکمرانوں سے گزارش ہے کہ ان کو سزا دیں۔ ان درندوں کے خلاف جلد از جلد کارروائی کی جائے اور ان کو اتنی عبرت ناک سزا دی جائے کہ ایک سزا کے بعد کسی کی ہمت ہی نہ ہو ایسا کوئی جرم کرنے کی۔
کیا بتاؤں کے کیا کیا دیکھا
اپنے پھولوں کی عزت کو پامال ہوتے دیکھا
جذبات کی قدر کو بگڑتے ہوئے دیکھا
احساس کا دم نکلتے ہوئے دیکھا!
لائبہ عمران، جامعہ کراچی