ہمارے ملک پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے پولیو ویکسین کے نام سے بچوں کو قطرے پلائے جارہے ہیں، اب تو باقاعدہ پولیو ٹیم کے ساتھ ایک عدد پولیس اہلکار گارڈ کے فرائض انجام دیتا ہے، اگر کوئی بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلوائے تو اسے زبردستی پولیو کے قطرے پلوائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ کس قسم کی انفارمیشن گھروں سے اکٹھی کررہے ہیں جب کہ جس گھر میں بچے نہیں ہیں تو دروازہ کھٹکھٹا کر یہ پوچھنا کہ آپ کے گھر میں کتنے افراد ہیں، کتنے شادی شدہ ہیں، گھر میں کتنے چولہے جلتے ہیں، اگر بچوں کی شادی ہوگئی ہے تو ان کے بچے کتنے ہیں اگر وہ گھر پر نہ ہوں تو یہ پوچھنا کہ کب تک آئیں گے۔ یہ سوال کرنا پولیو ٹیم کے لیے صحیح نہیں ہے اور پھر یہ پولیو کی آڑ میں کس قسم کی معلومات اکٹھی کررہے ہیں، ہمارے ملک میں پولیو سے بڑھ کر اور بھی مسائل ہیں۔ بے روزگار نوجوان ڈگریاں لے کر روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، مہنگائی کی شرح بڑھتی جارہی ہے، گٹر کا پانی اس طرح بہہ رہا ہے جیسے ندی نالے بہہ رہے ہیں، ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں، روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اداروں میں کرپشن عام ہے، کھلے عام رشوت کا لین دین چل رہا ہے۔ حکومت کو کچھ نظر نہیں آتا صرف پولیو مہم کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ آخر پاکستان کے رہنے والوں کے مسائل جب کہ حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کے مسائل کو حل کرے۔
سمینہ تبسم، سرجانی ٹاؤن