وہ بڑے ہی جوش و خروش سے پورے محلے میں ہر ایک کو اپنے بھائی کے حفظ قرآن کا بتا کر خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی۔ عبداللہ کی آج تکمیل حفظ پر دستار بندی ہونی تھی۔ اس نے اس دن کے لیے بڑے پیار سے بھائی کے لیے ایک تحفہ بھی تیار کرکے رکھا ہوا تھا۔ ابھی وہ اس کی واپسی کے لیے نین بچھائے بیٹھی تھی کہ خبر پہنچی ’’مدرسے پر بمباری ہوگئی اور اس میں 101حافظ قرآن بچے اللہ کو پیارے ہوگئے‘‘۔ چند ہی لمحوں میں ماں باپ اور بہن بھائیوں پر قیامت ڈھا دی گئی تھی۔خبر سننے کے بعد اسے پتا نہیں کہ وہ کہاں تھی۔ عائشہ کا بھائی اس دنیا سے چلا گیا تھا مگر اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا تھا۔ آخر کب تک؟ کب تک مسلمانوں کا لہو یوں ہی بہتا رہے گا؟ آئے دن یہ پڑھنے کو ملتا ہے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں 20 قتل کبھی نہتے فلسطینی مظاہرین پر اسرائیلی فائرنگ سے 15 شہید 1400 مسلمان زخمی، تو کبھی قندوز میں مسجد پر امریکی بمباری سے 150 شہید تو 500 سے زیادہ زخمی!!!آخری مسلمانوں کا یہ خون اتنا سستا کیوں ہوگیا ہے ان انسان دشمن درندوں کے لیے۔؟جہاں تک میرا خیال ہے یہ سب اس لیے ہے کہ ہم سب انسانیت کو بھول بیٹھے بھول بیٹھے ہیں وہ اسلامی بھائی چارہ جو آج سے 14 سو سال پہلے ہماری پیارے نبیؐ نے قائم کیا تھا۔جو انسانیت کا درس دیتا ہے دوسرے مسلمان بھائی تکلیف پر دکھی کر دے اس کی مدد کے لیے اپنی جان و مال کی بھی پروا نہ کرے۔ مگر آج کے مسلمان نے خود کو بس اپنے تک ہی محدود کردیا ہے۔
معصومہ ارشادسولنگی، میہڑ