فاٹا کے عوام سے دشمنی کیوں؟

153

محمد عاطف ،کراچی
کئی سال سے فاٹا اصلاحات کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہو ا ہے کبھی مخالفین تو کبھی سیاسی مجبوریاں اس مسئلے میں روکاوٹیں بنتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔قبائلی علاقہ جات میں 7ایجنسیاں اور 6ایف سی آر ہیں اور ان علاقہ جات میں انگریزوں کا بنایا ہوا ایف سی آر قانون1947 ء نافذ العمل ہے، اس کالے قانون کے تحت یہاں کے باسیوں کو وکیل دلیل اور اپیل جیسے کئی اہم حقوق سے محروم رکھا ہے ۔فاٹا کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دلانے کے لیے 2015ء میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے سر تاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ،اس کمیٹی نے 8ماہ کام کرنے کے بعد اپنی سفارشات کو پیش کیا لیکن اب تک ان سفارشات کو عملی شکل نہ دینا ایک بڑا سوال بن چکا ہے۔ اس سوال کا جواب ہر شخص چاہتا ہے جو فاٹا اور وہاں رہنے والے لوگوں کا خیر خواہ ہے کہ آخر
کون سے عناصر ہیں جو اس عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں فا ٹا اصلاحات پر بظاہر تو اعتراض حکومت ہی کے اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے کیا تھا اور ابھی تک حکومت ان کے تحفظات دور کرنے میں ناکام رہی ہے یا کرنا نہیں چاہتی یقیناًدلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے اگر دیکھا جائے تو نو از شریف صاحب کی بنائی گئی کمیٹی نے مشاورت مولانا فضل الرحمان اور ان کے نمائندوں سے کی ہو گی اور پھر اس کمیٹی کی رپورٹ بھی اس کا بینہ نے منظور کی جس کے ممبر جے یو آئی کے اکرم درانی خود تھے اس کے باجود مولانا صاحب کا اعٹراض کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ان اصلاحات کو عمل میں نہ لانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فاٹا کا قانونی ،آئینی اور انتظامی چیف ایگزیگزیکٹیو بلکہ بادشا جو کسی بھی عدالت اور حکومت کے سامنے جواب دہ نہیں ہے ۔ وہ خیبر پختونخوا گورنر ہے جس کی تعیناتی وفاقی حکومت کرتی ہے اور پھر وہ پولیٹیکل ایجنٹ کو تعینات کرتا ہے اس منصب کو حاصل کرنے کے لیے لوگ کروڑوں روپے دیتے ہیں اور یہ کروڑوں روپے قومی خزانے کے بجائے ان سیاست دانوں کے زاتی اکاونٹ میں جاتے ہیں۔حکومت نہیں چاہتی کہ ان کروڑوں روپوں سے محروم رہے اور اس کے ساتھ قومی خزانے سے ایک وفاقی اور ان کے اخراجات کا بوجھ بھی ہلکا ہو سکتا ہے اب تو عسکری قیادت بھی چاہتی ہے کہ فاٹا کو مرکزی دھارے میں لایا جائے اور وہاں کے لوگوں کی محرمیوں کو دور کیا جائے ۔ سیاسی قیادت کو بھی اپنے تمام تر ذاتی مفادات کو پس پشت رکھ کر اس مسئلہ کا حل نکالنا چاہیے اور وہاں کے لوگوں کو ان کے بنیا دی حقوق فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔