جیسے مچھلی جل کی رانی ہے اور جل ہی اس کا جیون ہے۔ ویسے ہی عورت گھر کی رانی ہے گھر ہی اس کی زندگی ہے۔جیسے مچھلی کی زندگی پانی کے بنا ادھوری ہے۔ ایسے ہی عورت کی زندگی مظبوط سائبان کے بنا ادھوری ہے۔ ملکائیں اپنے محلوں کے لیے بہت قربانیاں دیتی ہیں۔ آج کی عورت کو بھی دینی چاہئیں۔ مرد باپ کے روپ میں کتنا ہی سخت مزاج ہو سہا جا سکتا ہے، مرد بھائی کے روپ میں تنگ نظر ہو برداشت کیا جا سکتا ہے، مرد شوہر کے روپ میں کتنا ہی ظالم ہو وفا کی جا سکتی ہے ، مرد بیٹے کے روپ میں کتنا ہی نا فرمان ہو دعا دی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ یہ سب محرم رشتے عورت کا سائبان ہوتے ہیں۔ سائبان چھت کو نہیں کہتے۔ سائبان دیواروں کو بھی نہیں کہتے۔ سائبان اس احساس کو کہتے ہیں کہ جس کے ساتھ عورت رات کے اندھیرے میں بھی سڑکوں پر گھومے تو ڈرتی نہیں۔مرد ان سب محرم رشتوں سے الگ ہو تو شیطان کا روپ بھی اختیار کر سکتا ہے۔جو نا قابل برداشت ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کی عورت آزادی کے نعرے کس کی تقلید میں لگاتی ہے۔ مغربی عورت کی تقلید میں ؟؟ وہ مغربی عورت جسے دو نوالوں کے لیے نہ جانے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مشرقی معاشرے کی عورت گھر کی رانی ہے کیوں کہ اسے دو نوالوں کے لیے دفتروں کے دھکے نہیں کھانے پڑتے۔ وہ گھر بیٹھے اپنا رزق حاصل کرتی ہے۔ ایک حد میں رہ کر ہر آزادی اسے ملتی ہے۔ اسلام عورت کو جو مقام و مرتبہ دیا ہے وہ کھانا گرم کرنے سے کم نہیں ہو جائے گا۔یہ مغربی پروپیگنڈا ہے کہ مشرقی عورت کو کمزور ثابت کر کے اپنے مادر پدر آزاد معاشرے کی تقلید کروائی جائے۔ آج تو وہ قیامت کا دور ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جا رہا ہے۔ پاک وطن کو دہشت گردوں کا ٹھکانہ سمجھا جاتا ہے۔ مغربی ملکوں میں کچھ بھی غلط ہو شامت سب سے پہلے مسلمانوں کی آتی ہے۔ ہمیں مغربی سازشوں کے خلاف نعرے لگانے چاہئیں مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔ ’’کھانا گرم نہیں کریں گے، ہمارا جسم ہماری مرضی‘‘ کیا یہ آزادی ہے۔ آئیں مل کے سوچتے ہیں کہ ہم کس قدر غلطی پہ ہیں۔ ہمارا مقام کیا ہے اور ہم کس قدر بلندی سے گر رہے ہیں۔
بنت ارشاد، لاہور