امتیازی سلوک

187

ناصر حسنی
یہ ایک خوش آئند منظر ہے کہ ان دنوں عدلیہ خاصی متحرک دکھائی دے رہی ہے مگر کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی جب تک فعال نہ ہو، ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ بااثر، بااختیار اور مقتدر طبقہ بعض معاملات میں خاصا متحرک دکھائی دیتا ہے مگر فعالیت کہیں نظر نہیں آتی۔ سرکاری اشتہارات پر وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کی تصاویر پر عدلیہ کی جانب سے پابندی ایک خوش آئند اقدام ہے مگر یہ اقدام اسی وقت قابل تحسین قرار پائے گا جب ان اشتہارات پر خرچ کی گئی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔
جج صاحبان کا ارشاد ہے کہ ان کے پاس حکمرانوں کی طرح صوابدیدی اختیارات نہیں، انصاف کی فراہمی میں تاخیر اس بے اختیاری کی ایک بڑی وجہ ہے مگر یہ آدھا سچ ہے کیوں کہ بے بنیاد اور جعلی مقدمات کی سماعت نہ کرنے کا اختیار جج صاحبان کو حاصل ہے مگر بار کونسل اور وکلا کے خوف سے ان کی سماعت کرتے ہیں۔ حکم امتناع اور ضمانتوں میں ججز اپنے اس اختیار کو بڑی بے رحمی سے بروئے کار لاتے ہیں، اس معاملے میں ان کی بے باکی اور آزادی بے مثال ہوتی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس محترم ثاقب نثار کے اس فرمان پر قربان جائیے! فرماتے ہیں کہ جب ادارے کام نہ کریں تو ایگزیکٹو کے کام میں مداخلت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں، ورنہ کسی کے کام میں دخل انداز ہونا ان کی فطرت کے منافی امر ہے۔ چیف صاحب ہسپتالوں کا دورہ فرما کر مریضوں سے پوچھتے ہیں کہ انہیں دوا ملتی ہے یا نہیں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ
حکومت اس کی صحت کے بارے میں بہتر اور مناسب اقدامات کرے اور اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عدلیہ کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کو ان کے حقوق دلائے۔ گستاخی معاف! یہ کام اسی عدلیہ کو زیب دیتا ہے جو شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کی ذمے داری سے احسن طریق سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت سے معمور ہو۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ دادا کے مقدمے کی پیشیاں پوتا بھگتا ہے۔ انصاف کی تمنا میں کئی کئی نسلیں پیوند خاک ہوجاتی ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ کبھی وقت نکال کر چیف صاحب عدالتوں کا بھی دورہ فرما لیا کریں تا کہ انہیں احساس ہو کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کوئی بھی ادارہ اپنے فرض اور ذمے داری سے مخلص نہیں۔ عدلیہ جو کچھ کررہی ہے عوام اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم پر اربوں روپے کی کرپشن اور دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرنے کے الزامات ہیں مگر انہیں بیرون ملک علاج معالجے کی اجازت دے دی گئی ہے اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو عیادت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں۔ حالاں کہ شوہر اور بیٹی کی عیادت کرنے سے مریض کا آدھا مرض ختم ہوجاتا ہے۔