ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں!

775

احمد حاطب صدیقی
’’کیا حال ہے؟‘‘
یہ وہ سوال ہے جو ماضی سے مستقبل کی طرف مسلسل سفر کرتا چلا آرہا ہے۔ کل کی طرح یہی سوال آج کل بھی ہر کوئی ہر کسی سے کرتا ہے۔ مگر کوئی بھی، کسی سے بھی، اس سوال کا جواب سننا نہیں چاہتا۔ کسی کے پاس اتنی فرصت ہے، نہ اتنی ہمت کہ فی الحال وہ دوسرے سے اُس کا حال تفصیل سے سن سکے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جواب دینے والا بھی بس اس قسم کے مختصر جوابات دے کر بے نیازانہ گزر جاتاہے:
’’بس جی۔۔۔‘‘
’’شکر الحمدللہ‘‘
’’کرم ہے مالک کا‘‘
کبھی کبھی جوابی وار کرتے ہوئے یہ سوال فریقِ اوّل ہی پر اُلٹ دیا جاتا ہے کہ:
’’آپ سنائیں!‘‘
مگر ہم نے کہانا کوئی سنتا ہے نہ سناتا ہے۔ ایک بار ہمارے ایک فلسفی قسم کے اُستادِ محترم جامعہ کراچی کی ایک راہ داری میں ہکا بکا اور گم صُم بلکہ صمٌ بکمٌ اپنا سر تھامے کھڑے تھے۔ ہم جو وہاں سے گزرے توگزرتے گزرتے سلام کرکے یوں ہی اخلاقاً پوچھ لیا:
’’سر! یہاں کیسے کھڑے ہیں؟‘‘
سر نے جھٹ اپنا سر چھوڑ کر ہمارا بازو تھام لیا۔ راہ داری کی دوسری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
’’میاں ابھی ابھی یہاں سے تمہارے فلاں اُستاد گزرے ہیں۔ میں ہفتے بھر اسپتال میں رہ کر آیا ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی بولے:
’’بڑی خوشی ہوئی کہ آپ صحت یاب ہوکر آگئے ہیں۔ اور سنائیے اب صحت کیسی ہے؟‘‘
مگر جب میں نے اپنی صحت کا حال سنانا شروع کیا تو اُنہوں نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی اور ’’ارے۔۔۔ اُفُوف‘‘ کہہ کر انتہائی تیزی سے بھاگ لیے۔ میں ابھی تک حیران ہوں کہ جب وہ حال جاننا ہی نہیں چاہتے تھے تو پوچھا کیوں تھا؟‘‘
ہمارے اِن اُستادِ محترم نے ہمارا بازو تھام رکھا تھا۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم بھی یہ جاننا ہی نہیں چاہتے تھے کہ سر وہاں کیسے کھڑے ہیں۔
ہر شخص سے ہر شخص کو یہ گلہ ہے کہ: ’’آج کل کوئی کسی کی نہیں سنتا‘‘۔ تو کبھی آپ نے سوچا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ جاننے کے لیے ذرا کسی کی سن کر تو دیکھیے۔ فوراً پتا چل جائے گا کہ کوئی کسی کی کیوں نہیں سنتا۔ ایک بار ’’ایک کی‘‘ ہم نے بھی سنی۔ صدر کے بھیڑ بھڑکّے میں ۔۔۔ جہاں لوگ اتنی تیز رفتاری سے آ، جارہے ہوتے ہیں جیسے اُن کو اِس شہر کے شہر یاروں نے فی الفور شہر خالی کرنے کا حکم دے دیا ہو۔۔۔ ایک صاحب ہمارے دھکے سے گرتے گرتے بچے۔ اُنہوں نے پلٹ کر ہمیں کچھ کہنا چاہا تو ہم نے دیکھا کہ وہ ہمارے دُور پار کے ایک رشتہ دار ہیں۔ ہم نے جھٹ اُن کو پکڑ کر گلے لگا لیا اور علیک سلیک کرکے پوچھا:
’’ارے بھئی عبدالقدوس؟ ۔۔۔ کہاں بھاگے جارہے ہو؟ ۔۔۔ ارے میاں کیا حال ہے؟ ۔۔۔ کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
گلے لگانے کی دیر تھی کہ عبدالقدوس گلے پڑ گئے۔ اُنہوں نے وہیں فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر اپنا حال اور اپنی گزران کا شیڈول بہ تفصیلِ اوقات بیان کرنا شروع کردیا:
’’بس یار کیا بتاؤں، تمہیں تو پتا ہی ہوگا کہ مجھے آفس سے نکال دیا گیا ہے۔ تب سے بے روزگار ہوں، صبح سے شام تک مارا مارا پھرتا رہتا ہوں۔ کبھی اِس دوست کے پاس جاکر تقریرکی، کبھی اُس دوست کے پاس۔ تم جانو نوکری تو کوئی ہے نہیں۔ دوپہر کو کہیں کھانے کا موقع مل گیا تو کھا لیا۔ ورنہ چائے پی کر گزارا کر لیا کرتا ہوں۔ دن بھر جھک مارنے کے بعد جب تھک ہار کر گھر پہنچو تو بیوی کی ۔۔۔‘‘
بینک کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ہمیں بینک پہنچنا تھا۔ سو ہم نے اُن کا پیٹھ پیچھے بندھا ہوا ہاتھ زبردستی کھینچ کر اُن سے مصافحہ کیا اور کہا:
’’بھائی یہ کہانی تجھ اکیلے کی کہانی نہیں ہے۔ یہی کہانی آج کل ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب کی بھی کہانی ہے ۔۔۔ صبر کر!۔۔۔ بھائی صبر کر!۔۔۔ اور ہاں کسی دن اِس بے فرصتی سے فرصت ملے تو جاکر دفتر والوں سے پوچھ آئیو کہ ۔۔۔ مجھے کیوں نکالا؟‘‘
یہ کہہ کر جلدی جلدی وہاں سے بھاگے۔
اس سے زیادہ دلچسپ منظر ہم نے لاہور میں دیکھا۔ نولکھا بازار کے قریب کچھ نوجوان قسم کے ’زندہ دلانِ لاہور‘ کا ایک غول سڑک پر خوش فعلیاں کرتا چلا جارہا تھا۔ لڑکوں نے دیکھا کہ ایک بڑے میاں بڑا عجیب سا حلیہ بنائے، کئی گوشیہ ٹوپی اوڑھے، رنگ برنگی مالائیں گلے میں لٹکائے اور سبز چوغا پہنے وہاں سے گزر رہے ہیں۔ اُن میں سے ایک کو شرارت سوجھی۔ اُس نے دوستوں سے پوچھا:
’’کون ہے جو اِس چاچے سے جپھی ڈالے گا؟‘‘
ایک آفت کے پرکالے نے سینہ ٹھونک کر کہا:
’’میں ہوں!‘‘
وہ لپک کر عجیب ہیئت والے بزرگ کے پاس جا پہنچا اور ۔۔۔ ’’چاچا اِی!‘‘ ۔۔۔ کہہ کر بڑی پُرجوش جپھی ڈال دی۔ دیر تک اُن سے لپٹا رہا۔ الگ ہوا تو بڑے تپاک سے پوچھا:
’’ہور سناؤ! چاچی دا کی حال اے؟‘‘
اب جو چاچانے اپنے ناگہانی بھتیجے کے دونوں کندھے مضبوطی سے تھام کر چاچی کا حال سُنا نا شروع کیا ہے تو بھتیجے کے چھکے چھوٹ گئے مگر کندھے نہ چھڑا سکا۔ چاچا جی اُس برخوردارکے دونوں کندھے ہلاہلا کربڑے جوش وخروش سے بہ آوازِ بلند (یعنی اپنی آواز جس قدر بھی بلند کر سکتے تھے اُتنی بلند آواز سے) چاچی کا حال سنانے لگے:
’’بس پتر کیا بتاؤں؟ ایک دن اُس کے گوڈوں میں بڑا شدید درد اُٹھا۔ فٹافٹ ڈاکٹر یزدانی کے پاس لے گیا۔ اُس کے علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو ڈاکٹر بخاری کو دکھایا۔ ڈاکٹر بخاری نے بڑی بھاری فیس لے کر بتایا کہ یہ ڈاکٹر قدوائی کا کیس ہے۔ ڈاکٹر قدوائی کے علاج سے درد اور بڑھ گیا تو ڈاکٹر صمدانی کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹر صمدانی سے گیا ڈاکٹر نورانی کے پاس۔۔۔ ڈاکٹر نورانی سے پہنچا ڈاکٹر رحمانی کے پاس ۔۔۔ ڈاکٹر رحمانی سے بھی تنگ آگیا تو باقی کے ڈاکٹروں پر لعنت بھیج کر حکیم بقل بطورا کے مطب کا رُخ کیا۔ اُس سے بھی فائدہ نہ ہوا تو کسی نے مشورہ دیا کہ رُستمِ بھاٹی گیٹ، پھیکے پَلوان سے اپنی بُڈّی کی ہڈّی بٹھانے کی بات کرو ۔۔۔‘‘
پھیکے پہلوان کے پاس پہنچتے پہنچتے نوجوان کے کندھوں کے جوڑ جوڑ ہل چکے تھے۔ وہ بری طرح ہانپنے لگا تھا۔ بالآخر دور کھڑے ہو کر قہقہے لگانے والے لڑکوں کو کچھ رحم آیا اور اُنہوں نے آکر اسے چاچا جی سے چھڑایا۔ تب وہ اپنے کندھے سہلاتے ہوئے تائب ہوا کہ آئندہ کسی چاچا سے کبھی بھی متعلقہ چاچی کا حال نہ پوچھے گا۔
پہلے زمانے کے لوگوں میں فرصت ہی نہیں مروّت بھی بہت تھی۔ شاید اُسی زمانے میں یہ ’’کیا حال ہے؟‘‘ ٹائپ کے فقرے ایجاد ہوئے ہوں گے۔ لوگ باگ اُس زمانے میں اپنے محلے، پڑوس، اعزہ و اقارب، دوست احباب اور رفقائے کار سے نہ صرف اُن کا ’حال‘ دریافت کرتے تھے، بلکہ فرداً فرداً تمام متعلقین، گائے بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی خیریت پوچھتے تھے۔ خیریت پوچھنے کے بعد متعلقین کے مشاغل بھی پوچھا کرتے تھے۔ مثلاً:
’’تمہاری بھینس کی کتنی اولادِ نرینہ ہوئی اور کتنی اولادِ مادینہ؟‘‘
حال احوال سے باخبر ہونے کے بعد ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک بھی ہوتے تھے۔ باہم دکھ درد بٹاتے ہی نہیں تھے، دکھ درد میں کام بھی آتے تھے۔ اب تو ’حال‘ یہ ہے کہ کسی کو خود اپنا حال بھی مشکل ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ اپنے بال بچوں اوردیگر لواحقین کا حال بھی اگر ان میں سے کوئی خود (فیس بک یا واٹس ایپ گروپ پر) بتادے تو معلوم ہو جاتا ہے۔ ورنہ کوئی خبر نہیں آتی۔ ایسے میں ہم لوگ اپنے حکمرانوں اور اپنے سیاست دانوں سے یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ خود بڑھ کر ہم سے معلوم کریں گے کہ:
کس حال میں ہیں یارانِ وطن؟
۔۔۔’ایں خیال است و محال است و جنوں‘ ۔۔۔ مگر واہ بھئی واہ ۔۔۔ ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں!