ستر فیصد لاپتا افراد دہشت گرد

389

پاکستان میں ایک طرف تو ظلم کیا جاتا ہے دوسری طرف بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ مظلوم ہی کو ظالم قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ کہانی ملتان کے کسی غریب آدمی کی ہو، بلوچستان میں کچلاک کے یا مسلم باغ کے کسی غریب کی، سندھ کے کسی وڈیرے کے ہاری کی ہو یا کے پی کے میں کسی خان یا ملک کے علاقے کے غریب کی۔ سب برسہا برس سے یہ بھگت رہے ہیں اور یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اگر سرکار تک ان کی دہائی پہنچ گئی یا سرکار کو پتا چل گیا تو انصاف مل جائے گا۔ اعلیٰ عدالتوں تک ان کا مقدمہ چلا گیا تو انصاف لازمی ملے گا لیکن عوام کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی ہے۔ سرکار کے قائم کردہ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر مسئلہ ہی حل کردیا۔ انہوں نے بتایاکہ 70 فی صد لاپتا افراد دہشت گرد ہیں۔ ان کا مزید فرمانا یہ ہے کہ ہم کئی برس سے اس مسئلے پر کام کررہے ہیں اور مارچ 2011ء سے فروری 2018ء تک چار ہزار 929 کیسز موصول ہوئے، ان میں سے تین ہزار 219 کیسز نمٹادیے گئے ہیں۔ لیکن کیسز نمٹانے کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ جن لاپتا افراد کی لاشیں ملتی ہیں ان کا کیس بھی نمٹ جاتا ہے۔ تحقیقاتی کمیشن یہ بتانے سے قاصر رہتا ہے کہ لاپتا افراد کس کے پاس تھے۔ جن کی لاشیں ملیں انہیں کس نے مارا، ان کو کیوں پکڑا گیا تھا، کیا الزامات تھے؟ انہوں نے بس ایک جملے میں مسئلہ حل کردیا کہ 70 فی صد افراد تو دہشت گردی میں ملوث تھے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ 70 فی صد دہشت گردی میں ملوث تھے تو لاپتا کیوں کیا جاتا ہے۔ ان کو گرفتار کرکے عدالتوں میں کیوں نہیں لایا جاتا، ان پر الزام لگاکر اس کو ثابت کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ نے 70 فی صد افراد کو تو دہشت گرد قرار دے دیا لیکن اب ان کی ذمے داری مزید بڑھ گئی ہے۔ ایک تو وہ یہ ثابت کریں کہ 70 فی صد افراد کس طرح دہشت گرد تھے اور اس سے بڑھ کر بقیہ 30 فی صد کو آزاد کرائیں جو دہشت گرد بھی نہیں ہیں۔ یہ ظلم بھی بڑھ کر ہے کہ لوگوں کو گھروں سے لاپتا کردیا جاتا ہے، کسی کے جرم کا کوئی پتا نہیں ہوتا۔ کراچی میں تو یہ عام تھا کہ رات کو رینجرز یا منہ پر ڈھاٹے باندھے کچھ لوگ گھر میں گھستے اور یہی کہا جاتا کہ پولیس ہے۔ ان کے ساتھ سرکاری گاڑیاں اور پر اسرار ڈبل کیبن گاڑیاں ہوتیں کسی بھی نوجوان کو اپنے ساتھ لے جاتے اور کہاجاتا کہ بس ایک گھنٹے میں آجائے گا۔ دو چار دن میں چھوڑدیں گے۔ فون آجاتا ہے کہ خاموش رہو ورنہ لاش ملے گی۔ درمیان کی کہانیاں الگ ہیں کہ کسی کا معاملہ لاکھوں روپے میں طے ہوجاتا ہے، کسی سے پیسے لے کر بھی قتل کردیاجاتا ہے۔ جس کو چاہتے ہیں کسی بھی کیس میں پھنسادیتے ہیں اور اب لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ نے ہزاروں افراد کو لاپتا کرنے والوں کو کلین چٹ دے دی ہے کہ 70 فی صد تو دہشت گرد تھے۔ جب انہوں نے فیصلہ دے دیا ہے تو سزا بھی تجویز کردیں لیکن لاپتا لوگوں کا پتا تو بتادیں۔ اس حوالے سے لاپتا افراد کے لیے جد وجہد کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ سے یہ بیان بھی منسوب ہے کہ پاکستان میں اتنے لاپتا افراد نہیں جتنا انصاف لاپتا ہے ، انصاف ثبوت کی بنیاد پر ملتا ہے اور لاپتا کرنے والوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ تو پھر انصاف کیسے ملے گا۔ جاوید اقبال نے ایم کیو ایم کے لاپتا افراد کے بارے میں کہاہے کہ اس نے کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی، لیکن حکومت نے کیا کیا۔