گالیاں برداشت نہ کریں

460

عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب چیف جسٹس نے کہاہے کہ عدلیہ کو دی جانے والی گالیاں برداشت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم نے آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ سنایا تو لوگ عدالت کے باہر خواتین کو ڈھال بناکر لے آئے اور عدلیہ مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ غیرت ہوتی تو خود سامنے آتے۔ اسی دوران میں لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعظم شاہد خاقان، میاں نواز شریف اور مریم نواز سمیت 16 ارکان اسمبلی کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ عدالت کے خلاف تقریروں پر پابندی اچھی بات ہے۔ جو لوگ عدالت مردہ باد کے نعرے لگاتے یا لگواتے ہیں انہیں سامنے آنا چاہیے لیکن چیف جسٹس صاحب علامہ خادم حسین رضوی نے تو چوک پر کھڑے ہوکر سب کے سامنے چیف جسٹس آف پاکستان کو گالیاں دیں۔ خود ساختہ علامہ نے تو عورتوں کو ڈھال نہیں بنایا۔ ان کی ڈھال کتنی مضبوط ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدالتی فیصلے کے خلاف نہال ہاشمی کی تند و تیز تقریر اور دھمکی آمیز جملوں پر تو گرفت کرلی گئی لیکن خادم حسین رضوی کی ننگی گالیوں کو ثبوتوں کے لیے چھوڑدیاگیا یا کوئی اور وجہ ہوگی۔ نہال ہاشمی تو ڈھال کے لیے عورتیں نہیں لائے اس لیے پکڑے گئے لیکن خادم حسین رضوی کیوں آزاد ہیں۔ چیف صاحب کو گالی دینا قوم کی توہین ہے۔ نہال ہاشمی نے غلط زبان استعمال کی، غلط کیا اور سزا پائی۔ لیکن کھلی ننگی گالیاں برداشت نہ کی جائیں۔ عدلیہ مردہ باد ایک سیاسی نعرہ ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر انہیں کسی جانور سے تشبیہ دینا اور گالیاں دینا کسی طور قبول نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ عدلیہ کو گالیاں دینے والوں کو فوراً گرفت میں لیں، انہیں سخت سزا دیں، خواہ انہوں نے عورتوں کو ڈھال بنایا ہوا ہو یا کسی طاقتور ادارے کو ڈھال بنا رکھا ہو۔ جب عدالت عظمیٰ ایک وزیراعظم کو نا اہل، تا حیات نا اہل، پارٹی کی صدارت کے لیے نا اہل قرار دے سکتی ہے تو یہ ادارے اس کے سامنے زیادہ بڑے نہیں بلکہ ان کا قد کاٹ چھانٹ کر عدالت سے چھوٹا کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی قوم کو انصاف کی امید ہوسکے گی۔ جہاں تک عدالت کے خلاف تقریروں کو نشر کرنے کا تعلق ہے تو اس کی آڑ میں پیمرا ہر اس شخص کی تقریر روک دے گی جو ’’ناپسندیدہ‘‘ ہو۔ کم از کم ان 16 افراد کی تو تقریر روک دی جائے گی۔ پابندی کے بجائے سزا کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس طرح تو ہر چیز بند کرنی پڑے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عدلیہ کو گالیاں دینے والوں کو سخت اور عبرتناک سزا دی جائے تاکہ کوئی آئندہ ایسی جرأت نہ کرسکے اور ہاں اگر خواتین کو ڈھال کے طور پر لایاجاتا ہے تو ان کے احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں بھی عدلیہ کو گالیاں دینے پر سزا دی جانی چاہیے۔ چیف صاحب اگر خواتین کی ڈھال پر صبر کررہے ہیں تو طاقتور اور مضبوط ڈھال کے سامنے عدلیہ پر حملے بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔