جیب اور جیب کترے

820

آپ نے اکثر عوامی ہوٹلوں میں یہ فقرہ لکھا ہوا دیکھا ہوگا:
’’اپنی جیب کی حفاظت کیجیے‘‘۔
زیادہ محتاط لوگ یہ فقرہ دیکھتے ہی اس خیر خواہی اور اِس نصیحت پر شکر گزار ہوکر ہوٹل سے پلٹ آتے ہیں۔ جو نہیں پلٹتے، کچھ کھاپی بیٹھتے ہیں تو انہیں بل ادا کرتے وقت اس فقرے کی معنویت کا احساس ہوتا ہے۔ مگر۔۔۔ اب پچھتائے کا ہوت جب خود ہی چُگ گئے جیب۔
جن ہوٹلوں کے پروپرائٹر صاحبان محتاط گاہکوں کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں، وہ اسی فقرے کو یوں لکھتے ہیں کہ ’جیب کتروں سے ہوشیار رہیں‘۔ سو گاہک بڑی ہوشیاری سے چوکنا بیٹھا اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا کھاتا پیتا رہتا ہے۔ مگر جیب اُس کی بھی کاؤنٹر پر کتر لی جاتی ہے۔ وہ دیکھتے کا دیکھتا رہ جاتاہے۔ سارا چوکنا پن وہاں پہنچ کر ہوا ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جیب خالی اور چوکنا پن ختم کرکے کسی بوڑھے لدھڑ کی طرح بھاری قدم گھسیٹتا باہر نکل آتا ہے۔
جیب شاید ایجاد ہی اس لیے کی گئی ہے کہ وہ کتری جائے۔ صبح ہزار روپے جیب میں ڈال کر نکلیے۔ شام کو واپس آئیں گے تو شاید اُس ہزار روپے کی کچھ کترنیں ہی جیب میں بچی ہوں گی۔ دن بھر میں اچھی خاصی جیب کتری جاچکی ہوگی۔
یہ روپیہ پیسہ بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ جب تک آپ کے پاس رہے گا، آپ ایک ایک چیز کو ترستے رہیں گے۔ جب آپ کے پاس سے دفع ہوگا تو آپ کو کچھ ملے گا۔ پھر بھی لوگ جیب کی حفاظت جان سے زیادہ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک محافظِ جیب کو راستے میں لٹیروں نے آلیا۔ بندوق دکھاکر بولے کہ:
’’بولو! جان دوگے یا پیسا؟‘‘
انہوں نے گھگھیا کرکہا:
’’بھائی میرے! جان لے لو۔ پیسا تو آڑے وقتوں کے لیے بچا کر رکھا ہے‘‘۔
لٹیروں نے دیکھا کہ اُن کا داؤ خالی جا رہا ہے، کیوں کہ بندوق کی جیب بھی خالی ہے ۔۔۔ ’گولی وولی کوئی نہیں اس میں‘ ۔۔۔ تو ایک لٹیرے نے آگے بڑھ کر سمجھایا:
’’میاں! جان پر نہ کھیلو۔ جیب میں جتنے پیسے ہیں، نکال دو۔ بھلا اِس سے زیادہ آڑا وقت اور کب آئے گا؟‘‘
جان پر کھیلنے کا ایک سچا واقعہ بھی سن لیجیے۔ نیویارک کے اُس علاقے میں جو نیگرو لٹیروں کا گڑھ تھا، ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک مردِ کہستانی جانکلے۔ اُن گلیوں میں جانے والوں کو تجربہ کار لوگ یہ نصیحت کرکے بھیجا کرتے تھے کہ:
’’جیب میں ایک آدھ ڈالر ضرور ڈال لینا۔ اگر جیب سے کچھ نہ نکلے تو طیش میں آکر یہ کالے مار پیٹ پر اُتر آتے ہیں‘‘۔
پر ہمارے خان صاحب سے جب اُن کالوں نے جیب خالی کرنے کا مطالبہ کیا تو یہ خود طیش میں آکر مار پیٹ پر اُتر آئے۔ بلکہ کراچی والوں کی اصطلاح میں ۔۔۔ ’دے مار ساڑھے چار‘ ۔۔۔ مچا دی۔ پورے گینگ کو ’ہٹ ہٹ کے مارنا‘ شروع کردیا۔ بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا۔ مگر کب تک کرتے؟ یہ اکیلے تھے وہ چار پانچ۔ بالآخر پٹ پٹا کر ہانپتے ہوئے کالوں نے کسی طرح ان پر قابوپا کر زمین پر لٹالیا۔ جیب کی تلاشی لی تو فقط پچاس سینٹ برامد ہوئے۔ مگر جتنی پٹائی ہوچکی تھی اُس کی ’معاشی قدر‘ یقیناًپچاس سینٹ سے ہزار گُنا زیادہ ہوگی۔
خیر، خان صاحب کی بہادری کی قدر کرتے ہوئے اُنہیں مع اُن کے پچاس سینٹ کے چھوڑ دیا گیا۔ مگر لٹیروں نے اپنے گینگ کے ممبروں کے نام ایک ’منہ زبانی‘ سرکلر جاری کردیا کہ:
’’آئندہ ان شلوار قمیض پہننے والے لوگوں (یعنی پاکستانیوں) سے بالکل پنگا نہ لیا جائے۔ یہ لوگ پچاس سینٹ کی خاطر بھی جان پر کھیل جاتے ہیں‘‘۔
لیکن اُنہیں کیا معلوم کہ یہ پچاس سینٹ کی بات نہ تھی۔ بات یہ تھی کہ ۔۔۔ ’غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں‘ ۔۔۔ تاہم خان صاحب کی بدولت خاصے عرصے تک پاکستانیوں کو یہ ’استثنیٰ‘ حاصل رہا۔ اس واقعے کے بعد پاکستانی بھائی ایک دوسرے کو یوں نصیحت کیا کرتے تھے:
’ ’اُس علاقے میں جاؤ تو شلوار قمیض پہن کر جاؤ‘‘۔
جیب کے معاملے میں ہر انسان بڑا حساس ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ کی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے تو جیب میں کچھ نہ ہونے کے باوجود آپ گھبرا کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیں گے۔ ہاسٹل کے زمانے کی بات ہے۔ ایک تبلیغی دوست تمام ساتھیوں کو فجر کی نماز کے لیے جگانے آتے تھے۔ اُن کے آتے ہی، جو ساتھی جاگ رہے ہوتے تھے وہ بھی سوتے بن جاتے تھے۔ مگر یہ سب کی جیبوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر گہری نیند سونے والوں کو بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ حالاں کہ سوتے وقت بھلا جیب میں ہوتا ہی کیا ہے؟
یوں تو آپ کی جیب آپ کے جانتے بوجھتے بھی کتر لی جاتی ہے، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بل آپ کی جیب میں ڈال کر۔ مگر جیب کتروں کی معروف قسم وہ ہوتی ہے جو بھیڑ بھاڑ میں آپ کی جیب اتنی مہارت سے کتر کر چل دیتے ہیں کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا۔ ایسے ہی ایک جیب کترے کی ’جیب کتری‘ کا نہایت دلچسپ گیان پرکاش ویویک کے ایک مختصر افسانے کی صورت میں ہماری نظر سے گزرا۔ گیان پرکاش کا یہ افسانہ آپ بھی پڑھ لیجیے۔ لکھتے ہیں:
بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔ جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا:
’’میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا‘‘۔
تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی۔ نو روپے جاچکے تھے۔ یوں نو روپے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔۔۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہو اُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی۔
کچھ دن گزرے ۔۔۔ ماں کا خط ملا۔ پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔ ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔ لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا! ماں نے لکھا تھا:
’’بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپے کا منی آرڈر ملا۔ تو کتنا اچھا ہے رے ۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا‘‘۔
میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ۔ بڑی مشکل سے پڑھ سکا:
’’بھائی نو روپے تمہارے، اور اکتالیس روپے اپنے ملا کر میں نے تمہاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔ فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا! وہ کیوں بھوکی رہے؟ ۔۔۔ تمہارا جیب کترا‘‘۔