اقوام متحدہ کی تجویز پر شرمناک رد عمل

569

تنظیم اقوام متحدہ (یو این او) نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی یورپ و امریکا کی طرح زنا بالرضا کو جائز قرار دے اور اس کے لیے قانون بنائے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ ایسے تمام قوانین ختم کردیے جائیں جو زنا اور ناجائز جنسی عمل کو روکتے ہیں۔ اقوام متحدہ تو یورپ و امریکا کے زیر اثر ہے چنانچہ وہ کوئی بھی مشورہ تجویز یا ہدایت جاری کرسکتی ہے لیکن اس پر پاکستان کا رد عمل انتہائی شرمناک ہے۔ 10 اپریل کو جسارت میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق پاکستان کا رد عمل یہ تھا کہ اس سفارش پر غور کیا جائے گا یعنی یہ منظور بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ کیوں نہیں ہوا کہ یہ تجویز یا ہدایت اقوام متحدہ کے منہ پر ماری ہوتی کہ کیا اس نے پاکستان کو بھی یورپ و امریکا سمجھ رکھا ہے جہاں فریقین کی رضامندی سے بدکاری کسی قانون کی گرفت میں نہیں آتی اور جہاں بیویاں بھی زنا بالجبر کا مقدمہ درج کروادیتی ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر جنسی فعل کیا گیا۔ البتہ وہ ا پنی رضا سے جو چاہے کرتی پھریں۔ عصمت دری کا یہ بد ترین فعل اس وقت جرم کہلائے گا جب رضا شامل نہ ہو اور فریقین راضی ہوں تو اطمینان سے بدکاری کرتے رہیں۔ یورپ و امریکا میں بدکاری کے معنی ہی بدل چکے ہیں اور عصمت کا لفظ بے معنی ہوگیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس سفارش پر غور کرنے کا عندیہ کس نے دیا ہے۔ کیا وہ مسلمان ہے؟ گمان ہے کہ مذکورہ رد عمل پاکستان کی وزارت انسانی حقوق کے کسی ذمے دار کی طرف سے آیا ہے۔ ایسے غیر ذمے دار بلکہ بے شرم شخص کا نام بھی سامنے آنا چاہیے۔ یہ رد عمل ایسا نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔ اس سے ظاہر ہورہاہے کہ مستقبل میں اسے تسلیم بھی کیا جاسکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ غور کرنے کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس میں غور کرنے کی کون سی بات ہے۔ کیا وزارت انسانی حقوق کے کسی فرد کو یہ نہیں معلوم کہ زنا بالجبر ہو یا بالرضا اسلام میں اس کی کیا سزا ہے۔ جو مسلمان یہ سمجھے کہ زنا کرنے والے کو، خواہ بالرضا ہو کوئی سزا نہیں ملنی چاہیے ایسے شخص کو بھی کوڑے مارنے چاہییں۔یہاں صورتحال یہ ہے کہ کچھ بھٹکی ہوئی خواتین یہ کہہ رہی ہیں کہ میرا جسم، میری مرضی۔