آدابِ زندگی، رنج و غم کے آداب

1116

مولانا یوسف اصلاحی
۱۔ مصائب کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کیجیے۔ کبھی ہمت نہ ہاریئے اور رنج و غم کو کبھی حد اعتدال سے نہ بڑھنے دیجئے۔ دنیا کی زندگی میں کوئی بھی انسان رنج و غم، مصیبت و تکلیف، آفت و ناکامی اور نقصان سے بے خوف اور مامون نہیں رہ سکتا۔ البتہ مومن اور کافر کے کردار میں یہ فرق ضرور ہوتا ہے کہ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہو کر ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے، مایوسی کا شکار ہو کر ہاتھ پیر چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات غم کی تاب نہ لا کر خودکشی کر لیتا ہے اور مومن بڑے سے بڑے حادثے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اور صبر و ثبات کا پیکر بن کر چٹان کی طرح جما رہتا ہے۔ وہ یوں سوچتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا تقدیر الٰہی کے مطابق ہوا۔ خدا کا کوئی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں اور یہ سوچ کر کہ خدا جو کچھ کرتا ہے اپنے بندے کی بہتری کے لئے کرتا ہے یقینا اس میں خیر کا پہلو ہو گا۔ مومن کو ایسا روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ غم کی چوٹ میں لذت آنے لگتی ہے اور تقدیر کا یہ عقیدہ ہر مشکل کو آسان بنا دیتا ہے۔ خدا کا ارشاد ہے۔
’’جو مصائب بھی روئے زمین میں آتے ہیں اور جو آفتیں بھی تم پر آتی ہیں وہ سب اس سے پہلے کہ ہم انہیں وجود میں لائیں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی محفوظ اور طے شدہ) ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات خدا کے لئے آسان ہے تاکہ تم اپنی ناکامی پر غم نہ کرتے رہو۔‘‘
یعنی تقدیر پر ایمان لانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مومن بڑے سے بڑے سانحے کو بھی قضا و قدر کا فیصلہ سمجھ کر اپنے غم کا علاج پا لیتا ہے اور پریشان نہیں ہوتا۔ وہ ہر معاملے کی نسبت اپنے مہربان خدا کی طرف کر کے خیر کے پہلو پر نگاہ جما لیتا ہے اور صبر و شکر کر کے ہر شر میں سے اپنے لئے خیر نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’’مومن کا معاملہ بھی خوب ہی ہے وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر ہی سمیٹتا ہے اگر وہ دکھ، بیماری اور تنگدستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور یہ آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس کو خوشی اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوشحالی اس کے لئے خیر کا سبب بنتی ہے۔‘‘ (مسلم)
۲۔ جب رنج و غم کی کوئی خبر سنیں یا کوئی نقصان ہو جائے یا کوئی دکھ اور تکلیف پہنچے یا کسی ناگہانی مصیبت میں خدانخواستہ گرفتار ہو جائیں تو فوراً انا للہ وانا الیہ راجعون (البقرہ) ’’ہم خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے سب خدا ہی کا ہے، اسی نے دیا ہے اور وہی لینے والا ہے۔ ہم بھی اسی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کا جائیں گے۔ ہم ہر حال میں خدا کی رضا پر راضی ہیں۔ اس کا ہر کام مصلحت، حکمت اور انصاف پر مبنی ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے کسی بڑے خیر کے پیش نظر کرتا ہے۔ وفادار غلام کا کام یہ ہے کہ کسی وقت بھی اس کے ماتھے پر شکن نہ آئے۔ خدا کا ارشاد ہے۔
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، بھوک، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے اور خوشخبری ان لوگوں کو دیجئے جو مصیبت پڑنے پر (صبر کرتے ہیں اور) کہتے ہیں ’’ہم خدا ہی کے ہیں اور خدا ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی اور اس کی رحمت ہو گی اور ایسے ہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔ ‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ’’جب کوئی بندہ مصیبت پڑنے پر انا للہ پڑھتا ہے تو خدا اس کی مصیبت کو دور فرما دیتا ہے۔ اس کو اچھے انجام سے نوازتا ہے اور اس کو اس کی پسندیدہ چیز اس کے صلے میں عطا فرماتا ہے۔‘‘
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے پڑھا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ! کیا چراغ کا بجھنا بھی کوئی مصیبت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جی ہاں جس بات سے بھی مومن کو دکھ پہنچے وہ مصیبت ہے۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’’جس مسلمان کو بھی کوئی قلبی اذیت، جسمانی تکلیف اور بیماری، کوئی رنج، غم اور دکھ پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اسے ایک کانٹا بھی چبھ جاتا ہے (اور وہ اس پر صبر کرتا ہے) تو خدا اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’’جتنی سخت آزمائش اور مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا اس کا صلہ ہوتا ہے اور خدا جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو ان کو (مزید نکھارنے اور کندن بنانے کے لئے ) آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے پس جو لوگ خدا کی رضا پر راضی رہیں، خدا بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو اس آزمائش میں خدا سے ناراض ہوں، خدا بھی ان سے ناراض ہو جاتا ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
’’جب کسی بندے کا کوئی بچہ مرتا ہے تو خدا اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے۔ کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی جان قبض کر لی؟ وہ کہتے ہیں۔ ہاں۔ پھر وہ ان سے پوچھتا ہے تم نے اس کے جگر کے ٹکڑے کی جان نکال لی؟ وہ کہتے ہیں ہاں۔ پھر وہ ان سے پوچھتا ہے، تو میرے بندے نے کیا کہا۔ وہ کہتے ہیں اس مصیبت میں اس نے تیری حمد کی اور انا للہ و انا الیہ راجعون o پڑھا تو خدا ان سے فرماتا ہے۔ میرے اس بندے کے لئے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد (شکر کا گھر) رکھو۔‘‘ (ترمذی)
۳۔ کسی تکلیف اور حادثے پر اظہار غم ایک فطری امر ہے البتہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھیے کہ غم اور اندوہ کی انتہائی شدت میں بھی زبان سے کوئی ناحق بات نہ نکلے اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔