سیاسی بساط کے مہرے!

379

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف شکوہ کناں ہیں کہ عدالتیں ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہیں مگر جنرل پرویز مشرف کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتیں۔ ہمارے خیال میں عدالتوں نے اس لیے ہاتھ دھوئے ہیں کہ کہیں نواز وائرس میں مبتلا نہ ہوجائیں اور جہاں تک جنرل پرویز مشرف کا تعلق ہے تو عدالتیں انہیں اس لیے دیکھنا نہیں چاہتیں کہ کہیں وہ میاں نواز شریف کا اصل چہرہ نہ دیکھ لیں۔ میاں نواز شریف حیران ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کا نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا اور قوم حیران ہے کہ میاں نواز شریف ابھی تک ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ کے کنٹرول میں کیوں نہیں آئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ شاید نواز شریف کو فرشتہ سمجھ لیا گیا ہے اس لیے اس کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا ہے۔ شرجیل میمن کی حیرت بجا مگر قوم کی اس حیرانی کو کون دور کرے گا کہ جب تک شرجیل میمن جیل سے باہر رہے بالکل تندرست اور چاق و چوبند رہے مگر جیل جاتے ہی سارے جہاں کی بیماریوں نے انہیں گھیر لیا۔ گئے زمانے میں صاحب ثروت اور صاحب اقتدار و اختیار تیتر اور بٹیر پالتے تھے اور اسے بھی شغل رئیساں سمجھا جاتا تھا مگر جب سے جمہوریت جلوہ افروز ہوئی ہے مقتدر طبقہ اپنے تیتر اور بٹیر اڑا کر عدلیہ کے ہاتھوں کے توتے اڑانے کا شغل فرما رہا ہے۔ شاید اسے بھی شغل رئیساں سمجھا جاتا ہے۔
سیاست میں صداقت اور امانت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی کیوں کہ سیاست کے کیچڑ میں کنول نہیں کھلتا، کوئی بھی آدمی صادق و امین نہیں ہوسکتا کہ یہ پیغمبرانہ وصف ہے، صادق و امین صرف اللہ کا رسول ہوتا ہے۔ سیاست میں صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور وطن عزیز میں صالح افراد کی کوئی کمی نہیں، تلاش شرط ہے سو، ضروری ہے بلکہ ناگزیر ہے کہ صادق و امین کی تلاش کے بجائے صالح اور نیک افراد کو تلاش کیا جائے ورنہ صادق کے بعد امین کی تلاش لاحاصل ہوگی۔ قوم کے لیے بے معنی ہوگی اور تلاش کا عمل کبھی اختتام پزیر نہیں ہوسکتا۔
بعض سیاسی مبصرین اور ٹی وی اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کا بھی دعویٰ ہے کہ ن لیگ میں شگاف پڑ چکا ہے اور اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا مگر یہ ان کی خوش گمانی ہے کیوں کہ عمران خان کسی کو عزت و احترام کے قابل ہی نہیں سمجھتے، وہ اپنی ذات کے سوا کسی کو محترم اور معزز سمجھنے کے قائل ہی نہیں۔ سیاست میں کبھی کبھی سرنگوں ہونا بھی پڑتا ہے، کوئی بھی سیاست دان اور حکمران قومی پرچم سے برتر نہیں ہوتا۔ سیاست مصالحت کی متقاضی ہوتی ہے۔ جمہوریت عاجزی اور انکساری کا درس دیتی ہے اور آمریت گردن میں سریا ڈال دیتی ہے، اگر میاں نواز شریف اور عمران خان اس سریے سے جان چھڑالیں تو ان کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور قومی مسائل سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ٹی وی اینکرز عدلیہ کی آڑ میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بارے میں جو انکشافات فرما رہے ہیں اس سے ان کے دل کی بھڑاس تو نکل رہی ہے مگر عالمی سطح پر پاکستان کا جو امیج اُبھر رہا ہے قوم و ملک کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ چین اور سعودی عرب جیسے ہمدرد اور مخلص ممالک بھی ہماری حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں۔ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے والے ملک و قوم کا دم نکال رہے ہیں۔
ان دنوں زرداری اور ان کے فرزند ارجمند بلاول اپنے قدوقامت سے بھی بڑے دعوے کررہے ہیں، مگر ضمنی الیکشن ان کے دعوؤں کو جھٹلا رہے ہیں ان کی تکذیب کررہے ہیں تا ہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر شریف فیملی کو سیاست سے بے دخل کردیا گیا تو زرداری صاحب کو ایوان اقتدار میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ زرداری صاحب میں لاکھ خامیاں ہوں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ مفاہمت اور مصالحت کے ماہر ہیں اور ان کی یہ مہارت کسی بھی وقت سیاسی بساط کو الٹ سکتی ہے۔ زرداری صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ جب وہ کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو اس کے ماضی کو سامنے رکھتے ہیں۔