شہباز ڈاکٹرائن کا آغاز؟

332

عارف بہار
ایک نجی ٹی وی چینل کی اس خبر نے بہت سوں کو چونکا کر رکھ دیا ہوگا کہ مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریا کے ساتھ ملاقات سے انکار کیا ہے۔ اجے بساریا نے اپنے تین روز دورۂ لاہور کے دوران میاں شہباز شریف سے ملاقات کی درخواست بھی کی تھی۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورت حال کے تناظر میں ملاقات سے انکار کیا اور اس کے بعد بھارتی ہائی کمشنر کا دور�ۂ لاہور بھی منسوخ ہوگیا۔ بھارتی ہائی کمشنر کے دور�ۂ لاہور کی منسوخی کی وجہ یہی ہے یا پھر اس میں کسی اور نامعلوم وجہ کا دخل ہے معاملہ کچھ بھی ہو مسلم لیگ ن کی نئی قیادت نے اس معاملے پر ’’کھیل‘‘ کا اچھا آغاز کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔
بھارتی ہائی کمشنر نے کچھ ہی روز پہلے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات پر پہلا اور جاندار احتجاج شہباز شریف کے سیاسی رفیق اور ہم خیال چودھری نثار علی خان کی طرف سے سامنے آیا تھا جن کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال میں ملاقات نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اب شہباز شریف نے اسی فلاسفی کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات سے انکار کیا تو اسے مسلم لیگ ن میں ایک نئی یعنی شہباز لگیسی کا ظہور اور شہباز ڈاکٹرائن کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہی نہیں ملک کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے صدر ہیں۔ میاں نواز شریف کا گھرانہ سیاست کی جس بند گلی میں جا کھڑا ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشکل کے اس دور میں شہباز شریف ہی اس جماعت کی قیادت کرکے بند گلی میں راستے بنانے کی کوشش کریں گے۔
میاں نوازشریف اور مریم نواز شریف جس طرح زہر میں بجھے ہوئے تیروں کی مانند جملے ادا کررہے ہیں وہ ان کی سیاست کے لیے زیادہ اچھا شگون نہیں۔ اس کا ایک نتیجہ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کی عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی کے مرحلہ وار آغاز کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ ان حالات میں ملک میں مسلم لیگ ن کا مستقبل شہباز شریف سے وابستہ نظر آرہا ہے۔ شہباز شریف کا امیج ملک کی ہئیت مقتدرہ کے موافق اور تزویراتی ضرورتوں سے آشنا سیاست کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گھرانے کو سیاست اور ملک سے بے دخل کرنے والے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف آج بھی ان کے مداح ہیں۔ چودھری نثار علی خان کے ساتھ ان کے تعلق کی بنیاد یہ ذہنی ہم آہنگی بھی ہے۔ مگر ان کی مشکل یہ ہے ابھی تک مسلم لیگ ن کے اندراس فکر وفلسفے کے لیے دستیاب گنجائش بہت کم ہے۔ مسلم لیگ ن پر اس وقت نواز شریف کی چھاپ گہری اور گرفت مضبوط ہے۔ نواز شریف مدت ہوئی سوچ کی دوسری انتہا پر کھڑے ہیں۔ ان کی سیاست کی اُٹھان میں ہئیت مقتدرہ کا کردار بہت اہم رہا مگر اقتدار کی پہلی قلانچ بھرنے کے بعد ہی ان کی سوچ میں بنیادی تبدیلی آگئی تھی۔ ان کے خیال میں بھارت کے ساتھ تعلقات بحال اور دوستی قائم ہوئے بغیر خطے کے حالات سدھر نہیں سکتے۔ یہ یورپی یونین کی طرز پر جنوبی ایشیا کے خدوخال اُبھارنے کا تصور تھا۔ میاں نوازشریف نے خود کو اس سوچ سے ہم آہنگ کرکے خود کو مقامی سیاسی ضرورتوں اور انتخابی بندھنوں سے آزاد کرلیا تھا۔ پہلے دور اقتدار میں وہ اپنی سمت درست اور قلعہ مضبوط کرتے رہے اور دوسرے دور اقتدار میں انہوں نے اس معاملے میں ٹھوس پیش رفت کی کوشش کی۔ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد اورکشمیر پر ایک ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ طرز کے سمجھوتے کی طرف پیش قدمی اس کا نقطۂ عروج تھا۔ تیسرے دور اقتدار میں بھی وقت کم اور مقابلہ سخت کے اصول کے تحت وہ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں جا پہنچے اور ایک بار انہوں نے کھل کر کہا ان کا مینڈیٹ بھارت سے دوستی کا ہے۔ پھر جب وہ پاناما کے شدید بحران میں گھر گئے تو بھارتی سرمایہ دارسجن جندال اچانک نمودار ہوکر ان کی رہائش گاہ مری پہنچے۔ اس آمدورفت سے نواز شریف نے اپنے ملک کی ہئیت مقتدر کو محض چڑانے کی کوشش کی۔ یوں لگتا ہے کہ میاں نواز شریف نے بھارت سے دوستی کو غیر ضروری طور پر اپنے اعصاب پر سوار کیا۔ یہ ماحول صرف پاکستان ہی میں نہیں بھارت میں بھی پوری طرح قائم ہے۔ جہاں جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کو نشان پاکستان سے نوازا مگر بھارتی سیاست میں مرار جی ڈیسائی قطعی اجنبی اور معتوب بن کر رہ گئے تھے۔ سابق بھارتی وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی نے کراچی کا دورہ کرکے قائد اعظم اور پاکستان کے حوالے سے چند تعریفی کلمات ادا کیے تو انہیں سیاست میں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ کچھ یہی حال واجپائی کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کا ہوا جنہوں نے اپنی کتاب میں بانی پاکستان کے حوالے سے کچھ الفاظ ادا کیے۔ یہ نام عملی طور پر تو زندہ ہیں مگر تاریخ کے عجائب خانے میں اپنی حسرتوں کا ماتم کر رہے ہیں۔ شہباز شریف ماڈل ٹاون اور دوسرے مقدمات سے بچ نکلتے ہیں یا انہیں بھرپور اننگز کھیلنے کا موقع ملتا ہے تو شہباز شریف کی طرف بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات سے انکار دور رس اثرات کا حامل فیصلہ ہے۔ یہ مسلم لیگ کے اندر شہباز ڈاکٹرائن کے ظہور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
شہباز شریف اپنی سیاست کے خدوخال تراشنے کے مرحلے میں ہیں اوریہ وہ مرحلہ ہے چند برس پہلے جہاں آصف زرداری کھڑے تھے جب انہیں بے نظیر بھٹو کے سیاسی ورثے کو زرداری ورثے میں بدلنا تھا اور وہ کمال مہارت سے یہ معرکہ سر کر گئے تھے شہباز شریف اس معرکہ کو کیسے سر کرتے ہیں ؟۔اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔
پاکستان کے حکمران طبقے کی یتیم الفکری ہولناک ہے۔ اس طبقے کے لوگ مذہب، تہذیب،