۔10سال میں 10 بسوں کا تحفہ

255

سندھ پر گزشتہ 10 برس سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے چنانچہ ان دس برس میں سندھ حکومت نے اہل کراچی کو10بسوں کا تحفہ دیا ہے۔ یقیناً اس تحفے کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ صوبائی حکومت یہ بھی نہ دیتی تو عوام کیا کر لیتے ۔ سندھ حکومت کو یاد بھی نہ ہو گا کہ اس نے کراچی کو 336 بسیں دینے کا اعلان کیا تھا جو گزشتہ سال نومبر دسمبر میں مل جانی چاہییں تھیں ۔ وزیر ٹراسپورٹ ناصر حسین شاہ کو شاید کسی نے بتایا نہیں کہ نومبر 2017ء تو کب کا گزر چکا ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں وہ بسیں فراہم نہ کرنے کی تاویلیں پیش کرتے رہے اور اصرار کیا کہ ’’تین سو کچھ‘‘ بسیں کراچی میں ضرور آئیں گی ۔ غالباً اس کے لیے مزید 10 سال کی حکومت درکار ہے ۔10بسوں کی فراہمی پر شہریوں نے اسے ایک سنگین مذاق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کے ٹیکسز پر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے وزراء اور سندھ حکومت کی کارکردگی کا پول کھل گیا ۔ لیکن پول تو کب کاکھل چکا ہے ۔ اپنی ناکارکردگی پر ہر الزام وفاق کے سر منڈھ دیا جاتا ہے یہ سوچے بغیر کہ پیپلز پارٹی بھی 5 سال تک وفاق اور سندھ میں حکومت کرتی رہی ہے ، اس نے سندھ کے لیے کیا کیا ۔ کراچی کے شہریوں کے لیے گرین لائن منصوبہ بھی وبال جان بنا ہوا ہے ۔ 2016ء میں شروع ہونے والے پروجیکٹ کی عدالتی فیصلوں کی تاریخوں کی طرح مکمل ہونے کی بھی تاریخیں دی جاتی رہی ہیں ۔انتظامیہ کے مطابق اگلے مہینے سے سرجانی تا گرومندر بسیں چلنا شروع ہوجائیں گی، لیکن جس رفتار سے کام ہورہا ہے ،اس کو دیکھ کرلگتا ہے کہ مزید 3مہینے تک یہ کام مکمل نہیں ہو گا ۔ اس کے بعدگرومندرسے جامع کلاتھ مارکیٹ تک کاکام مزید ایک سال کا عرصہ لے گا اور ایم اے جناح روڈ جیسی مصروف گزرگاہ پر لوگوں کو مصیبتیں جھیلنی پڑیں گی ۔16ارب سے شروع ہونے والا پروجیکٹ اب 24ارب کا ہوچکا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس کی لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔ان دوبرسوں کے دوران تعمیری کام میں سست روی تو ایک طرف ،بدانتظامی کی بھی انتہا ہوگئی ۔گزشتہ دنوں فورکے چورنگی کے نزدیک ایک بچہ پانی کے گڑھے میں ڈوب کر مر گیا۔گرین لائن اسٹیشن کے لیے کھودے گڑھے کے اردگرد خطرے کا کوئی بورڈ تھا نہ کسی قسم کے حفاظتی انتظامات ۔اس سے پہلے فائیو اسٹارچورنگی کے نزدیک نادرا میگا سینٹر کے سامنے ایک جگہ کو کھلا چھوڑ دیا گیا،جسے موٹرسائیکل سواروں نے آمد رفت کا ذریعہ بنالیا ۔حقیقت یہ ہے کہ تعمیر کے سلسلے میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور لوگ کھڈوں سے بچنے کے لیے متبادل راستے تلاش کرتے ہیں ،جس کے نتیجے میں حادثات پیش آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر بھر میں گردو غبار کے باعث شہری پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں ۔