زندہ تہذیب کو بھول جاؤ اور مردہ تہذیب کو سینے سے لگاؤ

289

جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو اسے پاکستان اقوام متحدہ میں نہیں لے گیا تھا بلکہ یہ کام بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے کیا تھا۔ پنڈت نہرو کے اس اقدام کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے جو قرار دادیں منظور کیں ان میں کشمیریوں کے حق خود ارادی کو تسلیم کیا گیا ہے اور کشمیری جب بھی حق خود ارادی بروئے کار لائیں گے تو ان کے سامنے ہندو بھارت اور اسلامی پاکستان میں سے کسی ایک کے انتخاب کی آزادی ہوگی۔ اس اعتبار سے کشمیریوں کی سیاسی پسند یا Political Choice اپنی اصل میں نظریاتی پسند یا Ideological choice ہوگی۔ ریاض محمد خان کیا اب تو میاں نواز شریف جیسے لوگ بھی ’’نظریات‘‘ پر بات کرنے لگے ہیں مگر نظریات کا مفہوم نہ ریاض محمد خان کو معلوم ہے نہ میاں نواز شریف کو۔ انسان کے ذہن اور جذبے کی ساخت ایسی ہے کہ اگر انسان کامل سچائی کے ساتھ پتھر کے بت کو پوجنے لگے تو وہ بے جان بت کے لیے ’’جان دے سکتا ہے‘‘۔ لیکن اگر انسان سچا نہ ہو تو انسان کائنات کی واحد حقیقت خدا کے لیے بھی جان دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
ریاض محمد خان نے جرگہ میں یہ بھی فرمایا کہ مسئلہ کشمیر جہاد یا جنگ سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات ہی پر انحصار کرنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر جہاد اور جنگ دونوں سے حل ہوسکتا تھا مگر اس کے لیے ایسی قیادت درکار تھی اور ہے جو خدا کی مطیع و فرنبردار اور صرف خدا پر بھروسا کرنے والی ہو اور امریکا کے جوتے چاٹنے کو ’’اعزاز‘‘ نہ سمجھتی ہو۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے دوران بھارت اپنی ساری عسکری طاقت کو چین کی سرحد پر لے گیا تھا۔ چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ آگے بڑھو اور اپنے زور بازو سے اپنا کشمیر بھارت سے چھین لو۔ جنرل ایوب چین کے مشورے پر عمل کرتے تو کشمیر صرف ایک ہفتے میں پاکستان کا حصہ ہوتا۔ مگر امریکا نے جنرل ایوب سے کہا خبردار ایسا مت کرنا۔ تم چین بھارت کی جنگ کو ختم ہونے دو امریکا مسئلہ کشمیر حل کرائے گا۔ لیکن چین بھارت کی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ اس سے قبل 1948ء میں کشمیر میں جہاد کی کارروائی کے لیے بنایا گیا منصوبہ ناقص تھا اور اس میں جلد بازی کا عنصر شامل تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو کشمیر 1948ء میں جہاد سے حاصل ہوجاتا۔ کارگل کا تجربہ یہ ہے کہ اسے کوئی جہاد کہے یا جنگ مگر اس تجربے میں بھارت کی دو ڈویژن فوج کو گھیر لیا گیا تھا۔ اس فوج کے سامنے دو ہی امکانات تھے۔ ایک یہ کہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالے یا بھوک اور سردی کی شدت سے ازخود ہلاک ہوجائے مگر میدان جنگ کی فتح واشنگٹن میں ’’پسپائی‘‘ بن گئی اور یہ ’’تحفہ‘‘ میاں نواز شریف کا ’’تخلیق‘‘ تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مسئلہ صرف میاں نواز شریف کا نہیں تھا۔ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت میں مفاہمت ہوتی تو مسئلہ کشمیر کا اصولی حل ممکن تھا۔ کارگل کی ایک اور توجیہہ بھی ہے اور وہ یہ کہ کارگل اپنی اصل میں ایک امریکی منصوبہ تھا یا اس منصوبے کو امریکا نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرلیا۔ اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ کارگل کی کارروائی کے لیے دو ہزار سے زیادہ جو خصوصی لباس خریدے گئے وہ دنیا میں صرف برطانیہ کی ایک کمپنی بناتی ہے۔ پاکستان نے اتنے بڑے پیمانے پر خصوصی سوٹ خریدے تو اس کی اطلاع یقیناًبرٹش انٹیلی جنس کو ہوگئی ہوگی اور امریکی سی آئی اے بھی اس صورت حال سے باخبر ہوگی۔ مگر برطانیہ اور امریکا نے بھارت کو اس کی اطلاع نہ کی۔ انہوں نے بھارت کی دو ڈویژن فوج کو مجاہدین یا پاکستانی فوجیوں کے نرغے میں آنے دیا۔ اس کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم امریکا کے صدر بل کلنٹن سے مداخلت کی ’’بھیک‘‘ مانگنے پر مجبور ہوئے۔ امریکا یہی چاہتا تھا کہ بھارت اس کے آگے ناک رگڑے تا کہ اس کے بعد بھارت کی منڈی مغربی سرمایے کے لیے کھل جائے۔ کارگل کے مسئلے کے حل کے بعد عملاً یہی ہوا۔ وہ بھارت جو پچاس سال سے اپنی منڈی پر تالا لگائے بیٹھا تھا اس نے تالا توڑ دیا اور مغرب کی کثیر القومی کمپنیاں یا ملٹی نیشنلز بھارت میں گھس گئیں۔ آج بھارت امریکا کا ’’اتحادی‘‘ یا چین کے مقابلے پر مغرب کا ’’آلہ کار‘‘ بنا ہوا ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ ہماری قیادت نے واقعتاً سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر عمل کیا ہوتا تو جہاد یا جنگ سے کشمیر ہمارا بن چکا ہوتا۔ پاکستان میں ایک معقول شخص بھی ایسا نہیں جو بھارت سے مذاکرات کے خلاف ہو مگر ہم 60 سال سے کشمیر پر مذاکرات کیے جارہے ہیں اور بے معنی مذاکرات کا ایک ہمالہ تخلیق ہوچکا ہے۔ مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل ہونا ہوتا تو مذاکرات کا ہمالہ اس مسئلے کو حل کراچکا ہوتا۔ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ طاقت کا عدم توازن ہے۔ بھارت خود کو بڑا بھی سمجھتا ہے اور اس کے حجم نے اسے تکبر کے ساتویں آسمان پر بٹھایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن مزید بگڑ تو سکتا ہے بہتر نہیں ہوسکتا۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ تقریباً ’’سازش‘‘ کے انداز میں پاک بھارت مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن جن کوششوں پر سازش کا گمان ہورہا ہو ان کے نتیجے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔