طاقت کا شہابِ ثاقب

123

طاقت از خود ایک چمک دار روشن اور درخشاں، نیر تاباں شے کا نام ہے۔ یہ اقتدار کی ہو تو مزہ دوآتشہ ہوجاتا ہے۔ زمانہ اس کے آگے بچھتا چلا جاتا ہے۔ معاملات کے بند دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ صاحبان طاقت و اختیارکا لباس، وضع قطع اور جملے رواج بن جاتے ہیں۔ طاقت مینجمنٹ کا تڑکا لگانے کے فن سے آشنا ہوجائے تو کیا ہی بات ہے تب مورخ بھی دست بستہ کھڑے ہو کر امیج بلڈنگ یوں کرتا ہے کہ طاقتور کی خامیاں بھی خوبیاں بن جاتی ہیں۔ تاریخ اس کی اداؤں کا عنوان بن کر رہ جاتی ہے۔ طاقت کی چمک دمک خیرہ کن ہو تی ہے۔ بس اس کا کیا کیجیے کہ مطلق طاقت کے اندر ہی کمزور ی کے اجزاء چھپے ہوتے ہیں۔ طاقت بے مقصدیت کی بلندیوں کو چھونے لگے تو پھر اس کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوتا ہے اور یوں ایک روز طاقت کا شہاب ثاقب اپنی روشنیوں اور رنگوں میں گم ہوکر پیوند خاک ہوجاتا ہے۔ میاں نوازشریف بھی پاکستانی سیاست کا ایسا شہاب ثاقب ہیں جو تین بار خود اپنی طاقت کی چکا چوند اور روشنیوں میں گم ہوئے۔ ہر تصادم میں وہ پاکستان کے معروضی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ وہ مطلق طاقت سمیٹنے کی خواہش کے جس سفر پر نکل کھڑے ہوتے رہے اس کا انجام جیل، ریل اور جلا وطنی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ کبھی وہ اُردن کے شاہ حسین بننے کے شوق میں تو کبھی ترکی کے اردوان بننے کی تمنا میں اقتدار کی جادونگری میں اس قدر دور نکلتے رہے کہ واپسی کا راستہ ہی بھول جاتے رہے۔ جو باتیں سیاسیات کے ایک عام طالب علم کو سمجھ میں آرہی تھیں تصادم کے ہر دور میں وہ میاں نواز شریف اور ان کے مشیروں اور مصاحبوں کی سمجھ میں نہ آسکیں۔
مجھے یاد ہے کشیدگی کے پہلے دور میں میں نے ایک کالم ’’میاں صاحب یہ پاکستان ہے‘‘ کے عنوان سے میں عرض کی کہ وہ پاکستان میں برطانیہ کی جمہوریت تلاش نہ کریں اپنی جمہوریت پسندی کو پاکستان کے زمینی حقائق سے آشنا کرکے چلیں۔ ایشیا کا شاہ حسین بننے سے گریز کریں۔ ایک اور کالم ’’میاں صاحب آگے اڈیالہ ہے‘‘ کے عنوان سے دوسرے دور اقتدار میں کشمکش کے عروج کے دنوں میں لکھا کہ میاں صاحب اس سے زیادہ طاقت سمیٹنے کی کوشش نہ کریں طاقت کے اس سفر میں آگے اڈیالہ ہے۔ ایک کالم ’’طاقت کی کمزوری‘‘ کے عنوان سے لکھا جس میں گزارش کی تھی کہ اور کتنی طاقت سمیٹیں گے اس سے زیادہ طاقت پاکستان میں ہضم نہیں ہوتی اور اس کے بعد شکست وریخت کا خود کار نظام حرکت میں آئے گا۔ آج تیسری بار میاں نواز شریف کی بے تاب سیاست حادثہ کروا بیٹھی ہے تو ان میں ہر عنوان آج کے حالات پر صادق آتا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقت نثار کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے بینچ نے ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62ایف ون کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔ اس شق کے تحت نااہل ہونے والا شخص عمر بھر الیکشن
نہیں لڑ سکتا۔ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف اور پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی بھی آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت ہوئی ہے۔ پچاس سے زاید صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت عوام کو صادق اور امین قیادت ملنی چاہیے اگر ایسا نہیں ہوتا تو نااہلی تاحیات رہے گی۔ البتہ عدالت عظمیٰ کا کوئی فیصلہ ہی اس فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ملک کی ایک اہم سیاسی شخصیت، ایک اہم سیاسی جماعت اور ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے دور رس اثرات کا حامل ہے۔ یہ مدتوں پاکستان کی رائے عامہ اور میڈیا میں ہر دوحوالوں سے زیر بحث بھی رہے گا۔ اس فیصلے کی زد جہاں ملک کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر پڑی وہیں ان کی سخت گیر حریف جماعت پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین بھی تاحیات نااہل قرار پائے۔ جہانگیر ترین کا معاملہ اس لحاظ سے جدا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ عملی سیاست کو خیر باد کہتے جا رہے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے ضمنی الیکشن میں اپنے بیٹے کو امیدوار بنا کر کیا تھا۔ اس کے برعکس نواز شریف ایک قومی راہنما ہیں اور ان کے سیاسی پیروکارو ں کی بڑی تعداد ملک کے طول عرض میں موجود ہے۔ ایک بڑی اور حکمران جماعت ان کے نام سے منسوب اور وابستہ ہو کر ن لیگ کہلاتی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں یہ جماعت تادم تحریر حکمران بھی ہے۔ خود نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ رہنے دو ابھی ساغر ومینا میرے آگے‘ کے انداز میں وہ سیاست اور اقتدار کی اننگز ابھی پوری طرح کھیلنے کے خواہش مند بھی تھے اور اپنے اندر اس کی توانائی بھی محسوس کر رہے تھے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ میں بھی ان کو خاصی قبولیت اور پزیرائی حاصل ہے۔ وہ اپنا بیانیہ مغربی بلاک کی خواہشوں اور ضرورتوں سے بڑی حد تک ہم آہنگ کر چکے ہیں۔ مغربی طاقتوں کے سب خوشہ چیں، این جی اوز کے پروردہ سب ان کے گرد جمع ہو چکے ہیں۔ ماضی میں یہ سہولت بے نظیر بھٹو کو حاصل تھی جب مغرب انہیں ایک روشن خیال اور لبرل سیاسی قائد کے طور پر دیکھ رہا تھا اور اس راہ پر آگے بڑھنے میں ان کی بالواسطہ مدد بھی کی جا رہی تھی۔ اس وقت میاں نواز شریف کو دائیں بازو اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں میاں نوازشریف نے اپنے اوپر لگا یہ لیبل اُتا ر پھینکا اور یوں مغرب نے انہیں پیپلز پارٹی کا بہترین متبادل سمجھ کر قبول کیا۔ ان کے خیال میں نواز شریف پنجاب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے زیادہ بڑے اور بہادرانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی اس راہ میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس کشمکش میں میاں نواز شریف کئی بار محروم اقتدار بھی ہوئے اور جلاوطن اور قید بھی رہے۔ میاں نواز شریف کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنا کیمپ بدل دیا۔ جس خیمے میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی وہ اسے چھوڑ اور توڑ کر عالمی کیمپ میں جابسیرا کر بیٹھے۔ تیسری بار ان کے اقتدار کا غیر فطری انجام سے دوچار ہونا اور ان کی سیاست کا ایک حادثے کا شکار ہونا بتاتا ہے کہ قسمت انہیں بار بار موقع فراہم کرتی ہے وہ اپنی طاقت کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ اور آشنا کرنے کے بجائے اپنی طاقت کی چکا چوند میں ٹوٹ گرتے رہے۔