کہاں ہے بجلی کا بحران؟

224

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ ’’ملک میں بجلی کا بحران نہ ہونے کے برابر ہے، بڑے منصوبوں کی بدولت لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوا، پاکستان میں 18,18 گھنٹے بجلی جاتی تھی آج بجلی کا بحران نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔ ان حالات میں ایسا دعویٰ کرنا پروفیسر احسن اقبال ہی کا جگرا ہے جب ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ وہ نجانے ملک کے کس حصے میں رہتے ہیں۔ ان کی یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ پہلے 18,18 گھنٹے بجلی جاتی تھی اب 16,16 گھنٹے جاتی ہے۔ اب اگر وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی بات درست ہے تو پھر ان کے وزیراعظم شاہد خاقان نے کس بات کا نوٹس لیا ہے؟ انہوں نے لوڈشیڈنگ کے مسئلہ پر پیر کو کراچی میں کابینہ کمیٹی کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ وزیراعظم صاحب اس اجلاس میں احسن اقبال کو ضرور لے کر آئیں تاکہ ان سے پوچھا جاسکے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کہاں ممکن ہوا ہے۔ کراچی میں تو صورتحال یہ ہے کہ جیسے جیسے احتجاج بڑھ رہا ہے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ تو ساری ذمے داری وفاق پر ڈال کر مطمئن ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ خود ساختہ ہے، گیس کی کمی کا مسئلہ نہیں، کراچی والوں سے دشمنی کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن سندھ حکومت کو دیدی جائے۔ وفاق کہیں یہ مطالبہ مان ہی نہ لے۔ اس سے پہلے سندھ حکومت کے تمام اداروں کی کارکردگی ضرور مد نظر رکھی جائے۔ وزارت بلدیات میں کروڑوں روپے کی چوریاں تو ابھی کی بات ہے۔ مراد علی شاہ کے مطالبے کے جواب میں پاور ڈویژن کے وفاقی وزیر اویس لغاری نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ الیکشن سے پہلے ڈراما نہ کریں۔ وفاقی وزیر نے بھی الزام بجلی کی چوری پر رکھ دیا کہ کراچی اور سکھر میں بجلی چوری کی وجہ سے عوام مشکل میں ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ پہلے بجلی کی چوری رکوائیں پھر وزیراعظم ہاؤس یا کسی اور جگہ دھرنا دینے کی بات کریں۔ ان کو ضرور معلوم ہوگا کہ بجلی کہاں کہاں چوری ہورہی ہے آخر پاور ڈویژن کے وزیر ہیں۔ لیکن کراچی میں تو جن علاقوں میں بجلی چوری نہیں ہوتی وہاں بھی گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے۔ جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے خلاف وزیراعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا لیکن وزیراعلیٰ ادارہ نور حق پہنچ گئے اور دھرنے کی جگہ بدلوا دی۔ حافظ نعیم الرحمن نے گھر آنیوالوں کا لحاظ کیا۔ مراد علی شاہ نے پیشکش کی کہ سب مل کر اسلام آباد چلیں اور ایوان وزیراعظم کے سامنے دھرنا دیں۔ اس کے امکانات بہت کم ہیں تاہم امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا ہے کہ اسلام آباد لانگ مارچ بھی کرسکتے ہیں۔ کل بروز پیر وزیراعظم خود کراچی آرہے ہیں ان کے سامنے احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ دریں اثناء کے الیکٹرک نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی علاقوں میں بل تقسیم کرنا بند کردیا ہے۔ جب بل نہیں ملے گا تو ادائیگی بھی نہیں ہوسکے گی۔ چنانچہ ایک ماہ بعد کے الیکٹرک کنکشن منقطع کرسکتی ہے۔ اس نے لوڈشیڈنگ مزید بڑھانے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ پریس کلب پر جماعت اسلامی کراچی کے دھرنے سے خطاب کرتے مقررین نے چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی ہے۔ کے الیکٹرک کیخلاف نیپرا کی رپورٹ بہت واضح ہے۔ اس کی بنیاد پر کارروائی ہوسکتی ہے۔