اُمیدیں کب پوری ہوں گی

248

مالی سال 2017-18ء کے دس ماہ ختم ہونے کو ہیں اور 2 ماہ باقی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب رواں مالی سال کی معاشی کارکردگی کی ایک مبہم تصویر سامنے آنے لگتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نئے سال کی بجٹ سازی میں مصروف ہوجاتی ہیں، یوں تو بجٹ سالانہ آمدنی و اخراجات کی تجاویز پر مشتمل ہوتا ہے جسے پارلیمنٹ سے منظور کرانا ہوتا ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ بجٹ تجاویز پر مشتمل ایک بھاری بھرکم پلندہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرا ہوتا ہے، جسے کھولنے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ اپوزیشن بجٹ تجاویز کی مخالفت کرتی ہے اور حکومت اکثریت کی بنیاد پر اپوزیشن کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے بجٹ منظور کرلیتی ہے۔ بجٹ کے اعداد و شمار سے عوام کو کم ہی دلچسپی ہوتی ہے، سوائے پنشنرز کے جنہیں اپنی پنشن میں اضافے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں اضافے کی فکر ہوتی ہے لیکن 2018ء کیوں کہ انتخابات کا سال ہے اور انتخابات سے پہلے حکومت کا خاتمہ اور نگراں حکومت کی تشکیل ہونی ہے اور انتخابات کے بعد نئی حکومت جو ستمبر، اکتوبر تک وجود میں آئے گی اس لیے یہ موضوع بھی زیر بحث ہے کہ کیا جانے والی حکومت کو اگلی حکومت کے لیے بجٹ سازی کا حق حاصل ہے۔
جہاں تک سال 2017-18ء کی معاشی کارکردگی کا تعلق ہے اس میں اندرونی کارکردگی بہتر نظر آتی ہے جبکہ معیشت کا ایکسٹرنل سیکٹر جس کا تعلق زرمبادلہ کی قدر اور ذخائر، کرنٹ اکاؤنٹ، درآمد وبرآمد، بیرونی قرضہ، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) وغیرہ میں صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرح نمو اس سال 5.8 فی صد رہی
جب کہ ہدف 6 فی صد کا تھا، اسی طرح صنعت سازی کی شرح نمو 6.2 فی صد، زراعت کی شرح نمو 3.8 فی صد اور خدمات کی شرح نمو 6.43 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے۔ صنعتوں میں سیمنٹ، آٹو موبائل، بجلی کے آلات وغیرہ میں نمایاں اضافہ ہوا جب کہ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے اہم صنعتی شعبہ ٹیکسٹائل مسلسل زوال کا شکار ہے۔ اس شعبے کے کارخانے بند ہورہے ہیں، ہزاروں مزدور بے روزگار ہورہے ہیں، اس کے نتیجے میں برآمدات میں بھی کمی آئی ہے، مگر پانچ سال ہونے کو آئے حکومت نے ٹیکسٹائل کی بہتری کے لیے کچھ نہ کیا۔
اسٹاک ایکسچینج میں انڈیکس پوائنٹ 46600 تک چلا گیا ہے، کنسٹرکشن کے شعبے نے 9.13 فی صد کے حساب سے ترقی کی ہے جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر 22 ارب ڈالر سے گر کر 17 ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7.4 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ روپے کی قدر میں گزشتہ 5 ماہ میں 9.5 فی صد کمی ہوگئی ہے۔ درآمدات 50 ارب ڈالر جب کہ برآمدات 24 ارب ڈالر تک جاسکیں گی۔ اس طرح تجارتی خسارہ 26 ارب ڈالر ہوگا۔ بیرونی قرضہ 85 ارب ڈالر ہوگئے ہیں اور قومی بجٹ کا 42 فی صد قرضوں اور سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے۔
بجلی کی پیداوار میں اضافے کے دعوے تو بہت کیے گئے لیکن اضافہ صرف 2 فی صد ہوا جس کے باعث پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کا جن قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ دیہی علاقوں میں 14 اور 16 گھنٹے، جب کہ شہروں میں 8 سے 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ کراچی کے عوام سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے جھگڑے میں سخت اذیت کا شکار ہیں لیکن صوبائی اور قومی حکومت تماشا دیکھ رہی ہیں۔ کراچی میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعت کار بھی احتجاج میں شامل ہوگئے ہیں اور جماعت اسلامی نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اب جب کہ الیکشن کی فضا پورے ملک میں چھائی ہوئی ہے دیکھتے ہیں نئی حکومت کس حد تک عوام کی اُمیدوں پر پورا اُترتی ہے۔