اعلیٰ تعلیم تو مدارس ہی کی ہے

344

جامعات ترمیمی بل گورنر سندھ سے اسمبلی کو واپس مل گیا۔ اسمبلی نے ایک دن کے لیے غور موخر کیا اور اگلے دن جوں کا توں منظور کرلیا۔ یہ تو خیر ہونا ہی تھا۔ لیکن اس بل پر بحث کے دوران دینی مدارس اور مذہب سے بیزاری کا برملا اظہار کیا گیا۔ بل پر بحث کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جب اسمبلی سے خطاب کیا تو اپنا دل بھی کھول کر سامنے رکھ دیا۔ کہنے لگے کہ سندھ حکومت صوبے کی جامعات کو سالانہ 5 ارب روپے دیتی ہے یہ رقم مولانا سمیع الحق کے کسی دینی مدرسے کو نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم دینے والی جامعات کو دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا مستقبل اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ہے۔ صوبے کی جامعات کو جو بھی وسائل درکار ہوں گے حکومت سندھ مہیا کرے گی۔ یہ وزیراعلیٰ کا کوئی جذباتی بیان نہیں تھا اسے اسمبلی کے ایوان میں پالیسی بیان قرار دیا گیا ہے، گویا سرکار کی پالیسی دینی مدارس کی تضحیک اور انہیں کم تر درجے کا تعلیمی ادارہ ثابت کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ جملہ یقیناًکے پی کے حکومت یا عمران خان پر طنز ہوگا کہ ہم نے مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو یہ رقم نہیں دی ہے لیکن ان کے انداز سے جو استہزا اور مدارس کی تحقیر ظاہر ہورہی ہے وہ اس کے اگلے جملے سے مزید واضح ہورہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ملک کا مستقبل اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ہے۔ چاہے کوئی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بات کرنے آجائے، ہم بہت واضح اور مضبوط موقف رکھتے ہیں کہ جامعات، کالجز اور دور جدید کے تمام تعلیمی اداروں میں کہیں بھی اعلیٰ تعلیم نہیں دی جاتی۔ اعلیٰ تعلیم صرف اور صرف قرآن و حدیث کی ہے جو مدرسوں میں دی جاتی ہے۔ دینی مدارس پر تنقید کرنے والے نہ دین کو جانتے ہیں اور نہ مدارس کو۔ چوں کہ دین کو برا کہنے کی ہمت نہیں اس لیے ملا اور مدارس کی آڑ میں دراصل دین ہی کو برا کہا جارہا ہے۔
ہم نے یہ بات یوں ہی جذباتی ہو کر نہیں لکھ دی ہے کہ اعلیٰ تعلیم دینی مدارس کی ہوتی ہے۔ بلکہ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دینی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے، ان ہی ماخذ سے تمام علوم نکلتے ہیں۔ اب تو اتنی ریسرچ ہوچکی ہے کہ طب، انجینئرنگ، حساب، کمپیوٹر، جغرافیا، خلا سارے ہی امور کا سر قرآن و سنت میں موجود ہے۔ بہت سی کتھیاں قرآن پہلے حل کرچکا، جدید سائنس اب اس تک پہنچ رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے دینی مدارس کے خلاف جو غبار نکالا ہے انہیں اس کے لیے دلائل بھی دینے ہوں گے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 70 برس ہوچکے۔ اس ملک میں 70 برس کے دوران کسی دینی ادارے کے سربراہ کو پورے ملک کی حکومت کبھی نہیں ملی۔ آدھی پونی حکومت یا کسی صوبے میں حکومت کو مکمل حکومت نہیں کہا جاسکتا۔ جن لوگوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے اس ملک پر وہی حکمران رہے ہیں۔ پورے 70 برس میں کوئی ایک بجٹ ہوگا جو خسارے کا نہیں ہوگا۔ قومی خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے، قرضے بڑھتے جارہے ہیں، سڑکیں، بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ، تعلیمی ادارے، ڈاکٹر، صحت کی سہولتیں اسپتال۔۔۔ کوئی چیز موجود نہیں جو تھیں تباہ ہوچکیں۔ یہ سب کچھ نام نہاد اعلیٰ تعلیم والوں نے کیا۔ ان کا نظام تعلیم ایسا ہے کہ 8 ویں جماعت سے نقل شروع ہوتی ہے تو پی ایچ ڈی تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جعلی ڈگریوں کا کاروبار ان ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر ملازمتیں تقسیم ہوتی ہیں بلکہ لٹائی جاتی ہیں۔ جعلی تو چھوڑیں اصلی ڈگری والے بھی تباہی پھیلاتے ہیں۔ لیکن مدارس کی ڈگری جعلی ہونے کے واقعات آج تک سننے میں نہیں آئے۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ محض دینی مدارس کی سند کی بنیاد کبھی کسی کو مولوی، موذن، امام یا مدرس کی ملازمت نہیں دی جاتی بلکہ اگر موذن ہے تو اذان دینے کے لیے کہا جاتا ہے، چند لمحوں میں اس کی خوب خرابی سامنے آجاتی ہے۔ امامت کرنے کے لیے کہا جائے تو تلاوت تجوید وغیرہ دیکھی جاتی ہیں وہ بھی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کردیا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی مدرس بننا چاہتا ہے تو کتاب تھمادی جاتی ہے اور مکتب میں بھیج دیا جاتا ہے، چند لمحوں میں اس کی صلاحیت سامنے آجاتی ہے۔ ہاں کوئی مفتی بننا چاہتا ہے تو دارالافتا تک پہنچنے کے لیے اہلیت کی شرائط ہیں۔ عالم دین کی سند ضروری ہوتی ہے لیکن وہاں بھی اس کی ہر طرح سے جانچ ہوتی ہے۔ ایک ایک فتویٰ کئی کئی طرح سے سوالات ڈال کر دیا جاتا ہے پھر جواب مانگا جاتا ہے۔ ایک عالم دین 8 سال میں عالم کی سند حاصل کرتا ہے اور عام طور پر دو سال مفتی بننے میں لگتے ہیں۔ اگر حافظ بھی بنے توبسا اوقات یہ مدت 14 سال تک پہنچ جاتی ہے۔ کوئی کوئی اللہ کی مہربانی سے سب کچھ دس سال میں بھی کر ڈالتا ہے۔ لیکن یہ ملک تباہ نہیں کرتے۔ مدارس کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں فرقہ واریت کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن مدارس کے تمام وفاق کے بورڈز سے ملنے والے نصاب میں کہیں فرقہ واریت، دہشت گردی یا دقیانوسیت کی تعلیم نہیں۔ بلکہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق بحثیں ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں تمام وفاق ہائے مدارس کے زیر انتظام امتحانات ہوئے جن کے حیرت انگیز نتائج ہیں، کہیں نقل نہیں ہوئی کہیں سیکورٹی اور چھاپوں کی ضرورت نہیں پڑی، وفاق المدارس العربیہ جو سب سے بڑا وفاق ہے اس کے زیرانتظام امتحان میں اس سال ایک لاکھ 82 ہزار سے زاید طلبہ و طالبات شریک ہوئے، اس تعداد میں 5 ہزار اضافی طلبہ اور 14 ہزار اضافی طالبات ہیں اس طرح تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کے تحت امتحان میں ایک لاکھ 82 ہزار 439 طلبہ و طالبات شریک ہوئے۔ اس طرح وفاق المدارس السفیہ کے زیر اہتمام 40 ہزار طلبہ شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ رابطۃالمدارس کے زیر اہتمام بھی ہزاروں طلبہ و طالبات امتحان دیتے ہیں۔ وفاق المدارس کے امتحانات میں گزشتہ برس سے 40 ہزار طلبہ زیادہ شریک ہوئے۔ شعبہ حفظ میں تو 3 لاکھ 56 ہزار طلبہ و طالبات شریک ہوئے۔ ایک وفاق کے امتحانات شوال میں ہوتے ہیں۔ یہ سب ملا کر کوئی 12 لاکھ طلبہ و طالبات ہیں اور پھر وفاق کے تحت پہلے سے زیادہ طلبہ شریک ہورہے ہیں۔ تو پھر غور کرنے کی بات ہے کہ کیا قوم رجعت پسند ہوتی جارہی ہے۔ یا پھر حکمران غلط سمت میں پیسہ لگا رہے ہیں۔ جو خرابیاں بشری ہیں وہ دینی مدرسوں والوں میں بھی ہیں اور یونیورسٹی والوں میں بھی۔ لیکن ملک تو یونیورسٹی والوں ہی نے تباہ کیا ہے۔