انسان جعلی ہو تو اس کی ہر چیز جعلی ہوتی ہے۔ اس کی سماجیات، اس کی سیاست، اس کا ادب، اس کی شاعری، اس کی تہذیب یہاں تک کہ اس کا مذہب بھی۔ جعلی انسان کسی زمانے سے مخصوص نہیں مگر ہمارے زمانے میں جعلی انسانوں کی فراوانی ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جعلی تہذیب بھی عام ہوگئی ہے۔ اس جعلی تہذیب کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے بارے میں ایک تنقیدی فقرہ کہہ یا لکھ دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک فقرے کا بوجھ اس آدمی سے نہیں اٹھے گا۔ وہ آپ کے خلاف اشتعال سے بھر جائے گا، اس کے ساتھ آپ کے تعلقات ہمیشہ کے لیے کشیدہ یا ختم ہوجائیں گے۔ اس رویے کو وہ ایک ’’اخلاقی‘‘ اور ’’تہذیبی‘‘ لباس عطا کردے گا۔ البتہ اس شخص کے سامنے آپ مذہبی عقاید کو برا بھلا کہہ دیں۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ پر کیچڑ اچھال دیں، بڑی بڑی مذہبی شخصیات کی توہین کردیں، وہ آپ کو کچھ بھی نہیں کہے گا، بلکہ وہ چپ کا روزہ رکھ لے گا اور اسے ایک تہذیبی ردِ عمل قرار دے گا۔ ہماری جعلی تہذیب کی ایک بہت ہی بڑی مثال حال ہی میں قومی سطح پر سامنے آئی۔ میاں نواز شریف نے دن دیہاڑے ختم نبوت پر حملہ کیا مگر کسی نے میاں نواز شریف کے عقیدے اور تہذیب کے بارے میں سوال نہ اٹھایا، البتہ ایک نوجوان نے اشتعال میں آکر میاں صاحب کو جوتا دے مارا تو بہت سے افراد کو اچانک ’’تہذیب‘‘ یاد آگئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کی نظر میں ختم نبوت کے تصور کی اہمیت میاں صاحب کی تکریم سے کم ہے۔ اس پر ان کو اپنے ’’مہذب‘‘ ہونے کا گمان بھی ہے، ابھی کچھ روز پہلے ہمارے پاس ایک صاحب کا فون آیا کہنے لگے آپ جیسے مہذب شخص نے سرسید کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے آپ سے اس کی توقع نہ تھی۔ ہم نے عرض کیا کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمانوں کے تصور خدا، تصور قرآن، تصور رسالتؐ، تصور تہذیب اور تصور تاریخ کو رد کرے گا تو ہم اسے ’’جاہل‘‘ کہہ دیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان قرآن کے معجزات کا انکار کرکے قرآن کا انکار کرے گا، اسلام کے تصور رسالتؐ پر حملہ کرے گا، اصحاب رسولؐ کو بدو اور اونٹ چرانے والے قرار دے گا، احادیث کا انکار کرے گا، مسلمانوں کی پوری تفسیری اور فقہی روایت کو مسترد کرے گا تو ہم اسے اس کے قبیح افعال کی وجہ سے اس کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہی اصل تہذیب ہے، اس کے سوا جو ہے وہ مصنوعی اور جعلی تہذیب ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس مذہب، تہذیب، تاریخ اور عام علم سے مہیا ہونے والے بڑے بڑے دلائل ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسانوں کو انسانوں کے نام بگاڑنے سے منع کیا ہے۔ یہ مذہبی بات بھی ہے، تہذیبی بات بھی ہے، علمی بات بھی ہے۔ لیکن کائناتی اور انسانی تاریخ میں جو ہوا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ کبھی شیطان کا نام عزازیل تھا، وہ جن تھا مگر اپنی عبادت اور ریاضت کی وجہ سے وہ فرشتوں کی محفلوں کا حصہ تھا، لیکن جب اسے آدمؑ کو سجدے کا حکم دیا گیا تو فرشتوں نے سجدہ کیا مگر عزازیل نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ صرف انکار نہیں کیا اس نے انکار کی ’’دلیل‘‘ بھی بیان کی۔ اس نے کہا میں آگ سے بنا ہوں اور آدم مٹی سے تخلیق ہوئے ہیں، چوں کہ آگ مٹی سے بہتر ہے اس لیے بہتر کمتر کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے عزازیل کے عمل اور اس دلیل کو اس کے منہ پر دے مارا۔ جو شخصیت کل تک ’’عزازیل‘‘ تھی اچانک اس کا نام بگڑ گیا۔ اسے ’’شیطان‘‘ کا ’’خطاب‘‘ دے دیا گیا۔ اس پر بس نہیں کیا گیا بلکہ شیطان کے ساتھ ’’مردود‘‘ بھی چسپاں کردیا گیا اور عزازیل ایک لمحے میں ’’شیطان مردود‘‘ ہوگیا۔ ایک ایسا وجود جس کی ’’تردید‘‘ کردی گئی اور تردید کرنے والا خود خدا ہے۔ شیطان الرجیم یا شیطان مردود عزازیل کی تضحیک کے لیے کافی تھا مگر اس تضحیک پر مزید اضافہ کیا گیا۔ کہا گیا شیطان ابلیس بھی ہے، یعنی خدا کی رحمت سے مایوس، ابلیس کی یہ سزا اس کی فکر و عمل سے پیدا ہوئی۔ خدا کے حکم کی خلاف ورزی تو سیدنا آدمؑ نے بھی کی تھی مگر چوں کہ انہوں نے توبہ کرلی اس لیے انہیں معاف کردیا گیا، انہیں پیغمبری عطا کی گئی اور وہ قیامت تک ’’ابوالبشر‘‘ کہلائیں گے۔ ہمارے درمیان بعض ایسے ’’مہذب لوگ‘‘ بھی موجود ہوسکتے ہیں جو معاذ اللہ خدا کو بھی ’’تہذیب‘‘ سکھانے پر مائل ہوسکتے ہیں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ عزازیل نے حکم عدولی کی تھی تو اس کی سزا دینا کافی تھا۔ آخر اس کا نام بگاڑنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ قصہ یہ ہے کہ ’’کام‘‘ کا اثر ’’نام‘‘ پر بھی پڑتا ہے۔ ایک انسان کا نام کچھ ہوتا ہے مگر چوری، ڈاکے اور قتل کے بعد اس کو ’’چور‘‘ کہا جانے لگتا ہے، دنیا اسے ’’ڈاکو‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگتی ہے، معاشرہ قتل کرنے والے کو قاتل کہنے لگتا ہے، چور کو چور، ڈاکو کو ڈاکو اور قاتل کو قاتل کہنا بد تہذیبی نہیں بلکہ انہیں یہ نام دینا تہذیب کے تقاضوں سے ایک تقاضا ہے۔ آخر کوڑے کو کوڑا، گٹر کو گٹر اور گوبر کو گوبر نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے؟۔
رسول اکرمؐ سے زیادہ مہذب انسان نہ کوئی تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ مگر رسول اکرمؐ نے ہمیشہ ابوجہل کو ابوجہل کہا۔ حالاں کہ اس کا نام محمد ابن ہشام تھا مگر چوں کہ وہ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ آپؐ نبی ہیں آپؐ پر ایمان نہ لایا اور آپؐ کی نبوت کا انکار کرتا رہا۔ چناں چہ وہ عمر بن ہشام سے ابوجہل ہو گیا حالاں کہ عمر ابن ہشام کے ایمان لانے کے لیے آپؐ نے دعا کی تھی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ابوجہل کو ابوجہل کہنا ہی تہذیب ہے۔ ضرورت اور مجبوری کے تحت ابوجہل کو عمر ابن ہشام کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان تکریم کے خیال یا خود کو مہذب ظاہر کرنے کے لیے اسے عمر ابن ہشام کہہ کر یاد کرے تو وہ ’’ذلیل الطرفین‘‘ قرار دیا جائے گا۔ اس کی وجہ ہماری خواہش نہیں ہوگی بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ صاحب ایک شخص کے سلسلے میں خدا اور اس کے رسولؐ کے دیے ہوئے معنی کو بدل رہے ہوں گے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ الفاظ بجائے خود کچھ نہیں ہیں وہ معنی کا ظرف اور معنی کا اظہار ہیں۔ معنی کا تعلق باطن اور خارجی زندگی ہے اور ہماری روایت میں معنی کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری روایت ہی میں نہیں دنیا کی کئی اور روایتوں میں بھی معنی کا تعین ایک بہت بڑی روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی ذمے داری ہے۔ اس لیے کہ معنی کے مسخ ہونے سے زندگی مسخ ہوجاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر شے، معنی اور کیفیت کے لیے ٹھیک ٹھیک الفاظ کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں کنفیوشس کی ایک بات یاد آتی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اگر مجھے زندگی میں صرف ایک کام کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ الفاظ کے معنی کا تعین ہوگا۔ زندگی کی نوعیت ایسی ہے کہ بسا اوقات نئے معنی، نئی صورتِ حال اور نئی کیفیت کے بیان کے لیے زبان کا مروجہ ڈھانچہ کفایت نہیں کرتا، چناں چہ انسان کو نئے الفاظ، نئی علامتیں، نئی تشبیہات، نئے استعارے، نئی ترکیب اور اظہار کے نئے سانچے پیدا کرنے پڑتے ہیں۔ آئیے اس مسئلے کو بعض مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہماری شعری روایت میں محبوب سے شکوے شکایت کی روایت تو موجود تھی مگر خدا سے شکوے کی روایت موجود نہ تھی۔ لیکن اقبال نے ایک موقع پر خدا سے شکایت کرنے کے لیے ’’شکوہ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ شکوہ کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ اقبال کی نظم شکوہ میں مسلمانوں کے دل کا چور موجود ہے۔
(جاری ہے)