سرکاری اہلکاروں کی ڈکیتیاں 

140

ایسی خبریں بار بار آچکی ہیں کہ پولیس سے وابستہ افراد لوٹ مار میں ملوث پائے گئے جن میں سے کچھ گرفتار بھی ہوئے۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقائیت بڑھتی جارہی ہے۔ کراچی سے رپورٹ کے مطابق گلشن اقبال میں سی آئی اے کے سادہ لباس اہلکاروں نے گلشن اقبال میں علی الصبح ایک تاجر کے گھر پر دھاوا بول کر تاجر اور اس کے بیٹے کو حراست میں لے لیا اور گھر سے نقدی اور قیمتی سامان لوٹ لیا۔ ان سرکاری ڈاکوؤں میں 4 سادہ لباس اور 3 باوردی اہلکار تھے۔ اس وقت صبح کے سوا پانچ بج رہے تھے اور گھر والے سورہے تھے۔ تاجر کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈاکو جس پولیس موبائل میں آئے تھے اس پر سی آئی اے لکھا ہوا تھا۔ یہ لوگ گھر سے 5 لاکھ روپے نقد، گھر کے کاغذات، زیورات، آئی فون اور دیگر قیمتی سامان بھی لے گئے۔ تاجر اور اس کے بیٹے کو موبائل میں ڈال کر لے گئے بوڑھی والدہ گاڑی کے پیچھے دوڑتی رہی۔ ان سرکاری غنڈوں نے مار پیٹ کے بعد زبان بند رکھنے کی دھمکی دے کر چھوڑ دیا۔ انسپکٹر جنرل پولیس سندھ نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ تو طلب کرلی ہے اب دیکھنا ہے کہ یہ لٹیرے پکڑے جاتے ہیں یا کوئی بہانہ بنا کر بچ نکلیں گے۔ یہ تو عام روایت ہے کہ پکڑے جانے پر بھی پیٹی بند اپنے پیٹی بند بھائیوں کا لحاظ کرتے ہیں۔ راؤ انوار جیسے شخص کو، اطلاعات کے مطابق سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ ویسے بھی وہ آصف زرداری کا ’’بہادر بچہ‘‘ ہے، اس کو کون تنگ کرسکتا ہے۔ واقعہ 5 روز قبل کا ہے اور ایس پی گلشن اقبال کا کہنا ہے کہ مدعی رپورٹ درج کرانے ہمارے پاس آیا ہی نہیں۔ ایس پی مرتضیٰ کے مطابق تاجر کو جس موبائل میں لے جایا گیا وہ سندھ پولیس کی پرانی موبائل تھی جس کے ایک طرف ایس آئی یو سی آئی اے لکھا ہوا تھا اور ایک کار اس کے پیچھے چل رہی تھی۔ جب ایس پی صاحب کو اتنی معلومات ہیں تو مجرموں کے بارے میں بھی معلوم ہوگا لیکن وہ انتظار کررہے ہیں کہ مدعی آکر رپورٹ لکھوائے تو کچھ کیا جائے۔