جامشورو یونیورسٹی کا اعلامیہ

149

سندھ یونیورسٹی جامشورو کی انتظامیہ نے اردو کو نظر انداز کرکے صرف انگریزی اور سندھی زبان میں سائن بورڈ لگانے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا اور ایڈیشنل رجسٹرار نے ترمیم شدہ اعلانیہ جاری کردیا ہے۔ چلیے اچھا ہوا لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ سندھ یونیورسٹی کے رجسٹرار ساجد قیوم میمن نے 17 اپریل کو جو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہ یونیورسٹی اور اس سے ملحقہ کیمپس صرف انگریزی اور سندھی زبان میں سائن بورڈز لگائیں گے۔ جسارت میں اس حکم نامے کا عکس بھی شائع ہوچکا ہے اور واپس لینے کے اعلان سے بھی واضح ہے کہ رجسٹرار نے یہ حرکت کی تھی۔ اس کے باوجود سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر نے فرمایا کہ ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہی نہیں ہوا۔ پھر جو واپس لیا گیا وہ کیا تھا۔ سندھ اسمبلی میں گزشتہ جمعہ کو حزب اختلاف نے بھی اس پر احتجاج کیا تو حیرت انگیز طور پر اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے بھی کہہ دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی، تمام خبریں بے بنیاد تھیں۔ اسپیکر کا منصب تو بڑا معتبر ہوتا ہے۔ وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے خوب تاویل پیش کی کہ سندھ یونیورسٹی میں سائن بورڈ اردو اور انگریزی میں لگے ہوئے ہیں اس لیے یہ ہدایت جاری کی گئی کہ سندھی میں بھی سائن بورڈز لگائے جائیں۔ ناصر حسین شاہ صاحب، بہت خوب۔ توقع ہے کہ سراج درانی سمیت ان وزراء نے بھی نوٹیفکیشن پڑھا ہوگا پھر خبر کو بے بنیاد کیسے کہہ دیا۔ اگر یونیورسٹی رجسٹرار کے اس حکم نامے کا اخبارات میں ذکر نہ ہوتا اور بات سندھ اسمبلی تک نہ پہنچتی تو رجسٹرار نے کام دکھا دیا تھا۔ بات محض اردو میں سائن بورڈز نہ لگنے کی نہیں بلکہ یہ قومی زبان کے خلاف سازش ہے جو بروقت نظر میں آگئی۔ حیرت ہے کہ اردو پر انگریزی کو ترجیح دی گئی۔ سندھی تو صوبے کی اکثریت کی زبان ہے اس میں سائن بورڈ ضرور لگنے چاہییں مگر صوبے سے اردو کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے، قومی زبان تو پوری قوم کی ہوتی ہے اس پر صرف اردوبولنے والوں کی اجارہ داری نہیں۔