یعنی مسلمان عہد غلامی میں محسوس کرتے تھے کہ ہم نبی آخر الزماںؐ کی امت ہیں مگر اس کے باوجود مصائب ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ آخر کیوں؟ مسلمان یہ محسوس تو کرتے تھے مگر اپنے احساس کو زبان نہیں دے سکتے تھے۔ اقبال نے شکوہ لکھ کر مسلمانوں کے مبہم احساس کو زبان دے دی۔بلاشبہ اقبال نے شکوہ لکھی اور خوب لکھی، مگر یہ نظم لکھتے ہوئے ان پر اپنی تہذیب، تاریخ اور اظہار کے سانچوں کا اتنا دباؤ تھا کہ انہیں خدا سے شکوہ کرنے سے قبل ’’میرے منہ میں خاک‘‘ کہنا پڑا۔ اقبال نے لکھا
جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بہ دہن ہے مجھ کو
ہماری تہذیبی اور شعری روایت میں خدا کو ’’بے وفا‘‘ کہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا مگر ’’شکوہ‘‘ پیدا ہوا تو اظہار کا بالکل نیا سانچہ بھی وجود میں آیا۔ اقبال نے لکھا
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ’’ہرجائی‘‘ ہے
ہماری تہذیبی روایت میں ’’ملا‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ دونوں مذہبی تشخص کے حامل لوگ رہے ہیں لیکن تاریخی تجربہ بدلا تو ان دونوں کا تشخص ایک دوسرے سے مختلف ہوگیا۔ اس اختلاف یا امتیاز کو ظاہر کرنے کے لیے اقبال کو کہنا پڑا
الفاظ و معافی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
اقبال برصغیر کے ملّا سے سخت ناخوش تھے۔ اس لیے کہ ’’پیشہ ور‘‘ یا Professional بن گیا تھا۔ مگر اقبال افغانستان کے ملا سے بہت خوش تھے چناں چہ اس کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
اقبال افغانستان کے ملا سے خوش تھے تو اس لیے کہ عام حالات میں یہ ملا مسجد میں اذان دیتا تھا، امامت کراتا تھا، بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتا تھا مگر ضرورت پڑتے ہی یہ ملا ہاتھ میں ہتھیار لے کر میدان جہاد میں جاکھڑا ہوتا تھا۔ نئی زندگی کے تجربے نے سلیم احمد کو بھی اظہار کا سانچہ بدلنے پر مائل کیا۔ مثلاً انہوں نے لکھا
لوگ کہتے ہیں ہوس کو بھی محبت جیسے
نام پڑ جائے مجاہد کسی بلوائی کا
***
آکے اب جنگل میں یہ عقدہ کُھلا
بھیڑیے پڑھتے نہیں ہیں فلسفہ
***
ایک کونے میں نظر جس سے ربا کرتی ہے
دنیا داری کسی کتے سے زنا کرتی ہے
اصول ہے زندگی بدلے گی تو زندگی کے معنی بدلیں گے، معنی بدلیں گے تو الفاظ، تراکیب اور اظہار کے سانچے بدلیں گے، ایسا نہیں ہوگا تو زندگی اور اس کے معنی کو گرفت میں نہیں، سمجھنا اور انسان سے پیدا ہونے والے مسئلے کا حل نکالنا ناممکن ہوجائے گا۔ جو شخص یہ بات نہیں سمجھتا اسے الفاظ اور ان کی تہذیب پر گفتگو کا حق حاصل نہیں۔ بہت نچلی سطح پر اس مسئلے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسان اور درندے میں بڑا فرق ہے مگر کبھی کبھی انسان ایسا کام کرجاتا ہے کہ وہ درندہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ چناں چہ ہم معنی کو گرفت میں لینے کے لیے انسان کو ’’درندہ صفت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ قتل کی ہر واردات بہیمانہ ہوتی ہے مگر کبھی کبھی واقعتاً قتل بڑی بہمیت اور سفاکی سے کیا جاتا ہے، چناں چہ ہم قتل کو ’’بہیمانہ قتل‘‘ اور ’’سفاکانہ قتل‘‘ قرار دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی الفاظ کی تہذیب ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال بہت اہم ہے، ایک وقت تھا کہ ہم ’’زیادتی‘‘ اور ’’عصمت دری‘‘ میں فرق کرتے تھے مگر جعلی مہذب لوگوں کی جعلی تہذیب نے عصمت دری یا زنا بالجبر کو ’’زیادتی‘‘ کہنا اور لکھنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ کہ زیادتی جیسا معمولی لفظ عصمت دری جیسی سفاک ترکیب کا ہم معنی ہوگیا۔ ایسا کرکے ہم نے ایک طرف زیادتی کے ساتھ زیادتی کر ڈالی ہے اور دوسری طرف عصمت دری جیسے ہولناک تجربے کو لفظ زیادتی کا لباس پہنا کر اسے بہت ’’نرم‘‘ اور ’’معمولی‘‘ بنادیا ہے۔ یہ تہذیب کی نہیں جعلی تہذیب کی ایک مثال ہے۔