کابل حملہ امن کے خلاف سازش

206

افغانستان کے دار الحکومت کابل میں اتوار کے روز دھماکے میں 57 افراد ہلاک ہو گئے ۔ حملہ آور نے ووٹرز رجسٹریشن سینٹرکو نشانہ بنایا جہاں لوگ رجسٹریشن کے لیے انتظار کر رہے تھے ۔ مرنے والوں میں 26 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔مغربی ذرائع اطلاعات کے مطابق داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی مغرب کی خبر کو جوں کا توں آگے بڑھایا جاتا ہے لہٰذا کئی اخبارات میں خبر اس طرح لگی ہے کہ کابل میں داعش کا خود کش حملہ ۔۔۔ ایک تو حملے کے بارے میں پہلے سے یہ اعلان کرنا کہ یہ خود کش تھا اور کس نے کیا۔۔۔ بہت اہم ہے ۔یہ سلسلہ 9/11 کے نیو یارک حملے سے شروع ہوا۔۔۔ جوں ہی واقعہ پیش آیا القاعدہ افغانستان اور اسامہ بن لادن کے نام مغربی میڈیا پر گونجنے لگے۔ اس دھماکے کے بعد افغان رہنما عبداللہ عبداللہ نے جو رد عمل دیا ہے وہ بھی خاصا معنی خیز ہے انہوں نے کہا کہ شفاف انتخابات کا عزم متاثرنہیں ہو گا۔۔۔ گویا کوئی طاقت انتخابات کرانے سے روکنا چاہتی ہے اور افغان حکومت انتخابات کرانے میں سنجیدہ ہے ۔۔۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اس دھماکے کی مذمتپاکستان اور افغانستان کے علاوہ ایران اور افغان طالبان نے بھی کی ہے گویا افغان طالبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکا نے جس طرح القاعدہ کو ہر دہشت گردی سے جوڑا تھا اور اس کام کے لیے اپنے میڈیا کو بھر پور طور پر استعمال کیا تھا اب اسی طرح القاعدہ کی جگہ داعش کو متعارف کرایا جا رہا ہے ۔ ہمارا میڈیا بھی بڑے آرام سے داعش کی کارروائی کا نام لے لیتا ہے کوئی ذریعہ نہیں جس سے تحقیق کی جا سکے ۔۔۔ افغانستان کا معاملہ سارے آزاد میڈیا نے امریکا کے حوالے کر رکھا ہے ۔ جب امریکیوں نے پاکستانی سرحد کے قریب ’’بموں کی ماں‘‘ کے نام سے ایک بم کا تجربہ کیا تھا تو پاکستان سے کسی نے زحمت تک نہیں کی کہ اس حملے کے نتائج اور اثرات پر کوئی رپورٹ مرتب کی جاتی۔۔۔ اس کا سبب یہی تھا کہ حکومت سمیت سب نے افغانستان کی خبروں کے معاملے میں امریکا ہی پر انحصار کر رکھا ہے ۔ افغانستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی اور پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا خطے کے امن سے گہرا تعلق ہے ۔ اگر اس دہشت گردی کے اسباب اور جڑوں کو تلاش نہیں کیا گیا تو ہر ہفتے پاکستان اور افغانستان اسی طرح لاشیں دفناتے رہیں گے ۔ طویل جنگ کے بعد امریکی تو اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ بندوق مسائل کا حل نہیں لیکن وہ مسلمانوں کے اندر متنازع تنظیمیں پیدا کر کے انہیں بندوق پکڑا کر فساد کا بیج ڈال رہے ہیں ۔ یہ کام وہ عراق میں بھی کر چکے شام میں جاری ہے۔ اور افغانستان میں دوبارہ یہ کام کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ پاکستان اور افغان قیادت کو حاضر دماغی اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ امن کا قیام خواب ہی رہ جائے گا ۔