کھرب کے قرضے۔۔۔ ترقی کہاں ہے؟23

287

ایک خبر سامنے آئی ہے جس نے گزشتہ پانچ سال کی ترقی اور معاشی کامیابیوں کے سارے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے ۔خبر یہ ہے کہ آنے والے بجٹ کا حجم 55 کھرب ہو گا۔۔۔لیکن اس میں کیا خاص بات ہے ، خاص بات تو یہ ہے کہ اس سال بھی 33 کھرب کے نئے قرضے لینے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ دفاعی بجٹ میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے لیکن ترقیاتی بجٹ میں کمی کی تجویز رکھی گئی ہے ۔ اس بجٹ میں تنخواہوں میں زیادہ اضافہ نہ کرنے کی تجویز بھی رکھی گئی ہے ۔ شاید عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو تنخواہ دار اور پنشن لینے والوں سے چڑ ہے اس لیے ان پر یہ افتاد پڑی ہے۔ حالانکہ جب کبھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی تجویز دی جاتی ہے تو بسا اوقات سال گزرنے تک اس پر عمل نہیں ہوتا اور اگلے سال گزشتہ بجٹ کی تجویز پر عمل کر دیا جاتا ہے اور سرکاری ملازم اس پر خوش ہو جاتا ہے ۔ اگر اس سال کے مجوزہ بجٹ میں 20 کھرب کے خسارے کا امکان ہے تو پھر گزشتہ پانچ برس سے معیشت مستحکم ہونے کے دعوے کیوں کیے جا رہے تھے ۔کیا مستحکم معیشت والے ملک میں 55 کھرب کے بجٹ میں 20 کھرب خسارہ ہوتا ہے ۔ اگر مستحکم معیشت کا یہ حال ہے تو کمزور معیشت والے ملکوں کا کیا حال ہوتا ہو گا ۔کئی سال سے میاں نواز شریف اور اسحق ڈار کا راگ قوم سن رہی تھی اگر اس پر یقین کر لیتے تو قوم یہی سمجھتی کہ پاکستان ایشیائی ٹائیگر بن چکا ہے لیکن یہ دعویٰ کرنے والے دونوں شیرلندن میں ملتے ہیں ایک مسلسل بیمار ہے اور دوسرا نا اہل ۔ ملک کو پانچ سالہ حکومت کے نتیجے میں 20 کھرب کے قرضوں کا تحفہ ملا ہے پھر بھی میاں صاحب پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔۔۔ پوری حکومت ایک شخص کے تحفظ میں لگی ہوئی ہے ۔ سب نے عدالت عظمیٰ کے خلاف محاذ بنایا ہوا تھا ۔کابینہ کے پاس بھی سیاسی مخالفین کے الزامات کے جواب دینے کے سوا کوئی کام نہیں تھا ۔ اس پر طرہ یہ کہ میاں شہباز شریف کراچی آ کر اعلان کر گئے کہ موقع ملا تو کراچی کونیو یارک بنا دوں گا ۔ ویسے میاں صاحب بڑے میاں صاحب کی مہر بانی اور مہر بانوں کی سر پرستی کے نتیجے میں کراچی جرائم کے معاملے میں 30 برس سے نیو یارک سے بھی آگے تھا ۔ لہٰذا کسی شہر کو یورپ یا امریکا کے شہر کے مماثل بنانے کے دعوے کرنے کے بجائے اس شہر کو اس کے حال پرچھوڑ دینا چاہیے ۔ کراچی کو کراچی رہنے دیں ۔ اگر بجٹ تجاویز کے بارے میں خبر درست ہے تو یہ بات بھی تشویش کا باعث ہے کہ ترقیاتی اخراجات میں 210 ارب روپے کمی کی تجویز ہے ۔پہلے ہی ترقیاتی کاموں کے نام پر بھاری رقم لوٹ لی جاتی ہے اس میں سے کچھ رقم ترقی کے کاموں میں بھی استعمال ہوجاتی ہے لیکن اب 210 ارب روپے کم کر لیے گئے تو جاری ترقیاتی منصوبے مزید سست روی کا شکار ہو جائیں گے ۔ملک پر قرضوں کا بوجھ پہلے ہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ محاصل کا 29 فیصد پرانے قرضے اتارنے میں خرچ ہوجائے گا اور محاصل کبھی ہدف کے مطابق وصول نہیں ہوتے ۔ یہ خبر سامنے آنے کے باوجود حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ نواز شریف نے جو کیا درست تھا یا غلط تھا ۔ الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان سارا سال کیا کرتے رہتے ہیں جب حکومت قرضے لینے جا رہی ہوتی ہے اور قرضے لینے کا اعلان کرتی ہے تو یہ ارکان اسمبلی سوال کیوں نہیں کرتے کہ قرضے کیوں لے رہے ہو اور یہ اتارے گا کون۔۔۔ خسارے کے بجٹ اور محاصل میں کمی کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیان پر ضرور غور کرنا چاہیے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو سودی نظام ختم کر کے زکوٰۃ کا نظام لائیں گے ۔موجودہ نظام میں 9لاکھ ٹیکس دہندگان تھے ایمنسٹی کے بعد مزید کم ہو گئے لیکن زکوٰۃ کے نظام میں 9 کروڑ لوگ زکوٰۃ دیں گے ۔ سراج الحق کا اشارہ اسلامی نظام حکومت کی جانب ہے ۔۔۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے حکمران سودی بنکوں سے قرضوں اور بھاری شرح پر غیر ملکی اداروں سے قرضوں کی بنیاد پر معیشت سنوارنا چاہتے ہیں ۔ معیشت سدھارنا ہے تو سود سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ۔ یہ جو 23 کھرب کے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں اور جو کھربوں روپے کے قرضے پہلے لیے جا چکے ہیں ان سب کا اصل سبب سودی معیشت ہے اور سودی نظام اللہ اور رسول ؐ سے جنگ کے مترادف ہے یہ حکمران دنیا بھر کی رسوائی قبول کر لیتے ہیں لیکن اللہ اور رسول ؐ سے جنگ چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ اللہ سے بغاوت کے نظام میں صرف خسارہ ہو گا ۔ اس ملک کے عوام کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ورنہ وہ بھی اتنے ہی ذمے دار قرار پائیں گے جتنے سودی نظام کو چلانے والے ہیں ۔