’’کلچر‘‘ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تُو

346

قصہ بہت دِلچسپ ہے۔ کیوں نہ ہو؟ یہ قصہ انگریزی مزاح نگاری کے ’’مشتاق احمد یوسفی‘‘ یعنی جنابِ جارج مِکیش (George Mikes) نے اپنی ایک کتاب میں بیان کیا ہے۔ کتاب کا نام ہے: ’سوئٹزرلینڈ مبتدیوں کے لیے‘۔ (Switzerland for beginners) جارج مِکیش اپنے سفرناموں کے ایسے ہی دِلچسپ نام رکھتے تھے۔ وہ جرمنی گئے‘ کتاب لکھی تو عنوان سوجھا: “Uber Alles” جرمن زبان کا یہ تکیۂ کلام ’’بحیثیتِ مجموعی‘‘ یا ۔۔۔ ’ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دِگر‘ ۔۔۔ (دوسری مصیبتوں کے اوپر یہ مصیبت بھی پڑتی ہے عاشقی میں؟) جیسے کلمات کے اظہار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اُس بالائی لبادے یا انگریزی ’اوورآل‘ (Overall) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جسے زیب تن کرکے محنت کش جرمنوں نے معاشی طور پر تباہ حال جرمنی کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔
اُبھرتے سورج کی سرزمین (Land of the rising Sun) کا دورہ اُس دور میں کیا جب جاپان کی معیشت خود ایک تابناک سورج کی طرح اُبھر رہی تھی۔ اور جاپانی ین ایک مضبوط کرنسی کی صورت اختیار کرتا جارہا تھا۔ چناں چہ آپ کی کتاب کا نام ہے:
“Land of the rising Yen”
جارج مِکیش کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ہنگری پر اُفتاد پڑی۔ روسیوں نے قبضہ کرلیا۔ وہاں سے بھاگے اور برطانیہ جا پہنچے۔ برطانیہ پہنچ کر دیگر تارکینِ وطن کی طرح جارج مکیش نے بھی سیاسی پناہ اور وہاں کی شہریت حاصل کرلی۔ شہریت ہی نہیں، انگریزی زبان کے بہترین مزاح نگار کی حیثیت سے شہرت بھی حاصل کرلی۔ مگر روایت پسند انگریزوں نے کبھی اُن کو اپنا نہ جانا۔ اُنہیں ہمیشہ غیر ہی سمجھا۔ چناں چہ انگلستان کے موضوع پر اُنہوں نے جو کتاب لکھی اُس کا عنوان ہے: ’’پردیسی بننے کے آداب‘‘۔ “How to be an allien”
یہ تمام کتابیں دِلچسپ قصوں سے پُر ہیں۔
ایک دلچسپ قصہ، سوئٹزر لینڈ کے سفرنامے میں، مکیش نے یہ لکھا ہے کہ اپنے ایک سفرکے دوران میں ایک بار انہوں نے دیکھا کہ ایک پارکنگ ایریا میں بہت سی شاندار گاڑیاں کھڑی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں کا ایک غول آیا۔ ایک ایک نوجوان نے اپنے لیے ایک ایک گاڑی تاک لی۔ جارج بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھنے لگے۔ گاڑیاں تاک لینے کے بعد ہر نوجوان نے اپنی اپنی منتخب کردہ گاڑی کے پٹرول کی ٹنکی کا ڈھکن کھولا، اپنی اپنی پتلون کی زِپ کھولی اور ٹنکی میں پیشاب کرنا شروع کردیا۔
جارج کو بڑی حیرت ہوئی۔ اُنہوں نے ایک نوجوان کو سیر حاصل فراغت سے مکمل طور پر فارغ پایا تو جھٹ اُسے جاپکڑا:
’’تُم لوگ یہ کیا کررہے ہو؟‘‘
بڑے پیشہ ورانہ انداز میں آگاہ کیا گیا:
’’ہم لوگ دراصل اپنے ملک کی فوجِ آزادی (Liberation Army) کے سپاہی ہیں۔ یہ ہمارے سامراجی آقاؤں کی گاڑیاں ہیں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ پیشاب میں شکر شامل ہوتی ہے۔ یہ شکر جب پٹرول میں گُھل جاتی ہے تو تھوڑی ہی دور جانے کے بعد گاڑی کا انجن جام ہوجاتا ہے ۔۔۔ اور کچھ نہیں تو اس طرح سے ہم ان کی نقل و حرکت ہی جام کر دیتے ہیں‘‘۔
(اور آپ نے دیکھا کہ بقول ن۔ م راشدؔ ۔۔۔ ’اِس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر‘)
یہ جواب سُنتے ہی جارج مِکیش کے اندر کا مزاح نگار کود کر باہر آگیا:
’’ ایش شابش اے۔ میاں! ہم نے مختلف قوموں کو آزادی کے حصول کی خاطرا پنا خون بہاتے تو ضرور دیکھا ہے۔ مگر حصولِ آزادی کی خاطر کبھی کسی قوم کو اپنا ۔۔۔‘‘
خیر ۔۔۔ حصولِ آزادی کے لیے اُن نوجوانوں نے ’’کچھ‘‘ تو کیا۔ پر ہمارے نوجوان اپنے سامراجی آقاؤں سے حصولِ آزادی کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ یہ تو وہی کر رہے ہیں جو ایک سینما کے مالک کا توتا کر رہا تھا۔ کیا آپ نے نہیں سُنا سینما کے مالک کے توتے کا قصہ؟
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک سینما کے مالک نے ایک اُڑتا توتا پکڑ کر پنجرے میں بند کرلیا۔ اپنی کاروباری ضرورت کے مطابق اُس کی تعلیم وتربیت بھی کی۔ ’’کارپوریٹ کلچر‘‘ میں اُس نے یہی ہوتا دیکھا تھا۔ تربیت کی تکمیل کے بعد ہر روز وہ اپنے تربیت یافتہ توتے کا پنجرہ اپنے باکس آفس کی کھڑکی کے پاس لٹکا دیا کرتا۔ توتا وہیں لٹکے لٹکے کھڑکی توڑ ہجوم کو تلقین کرتا رہتا کہ:
’’قطار بنائیے جناب ۔۔۔ قطار بنائیے جناب!‘‘
ایک روز مالک کی غفلت سے پنجرہ کھلا رہ گیا ہوگا ۔۔۔ یا جو بھی وجہ ہوگئی ہو۔۔۔ توتا پرواز کر گیا۔ یوں توتے نے کارپوریٹ کلچر سے حصولِ آزادی کرلیا۔ مالک کو یوں (محض چُوری پر خوش رہنے والا) مفت کا غلام ہاتھ سے نکل جانے پر بہت افسوس ہوا۔ وہ اُسے ڈھونڈتا ڈھانڈتا قریبی جنگل کی طرف جانکلا۔ کیا دیکھتا ہے کہ توتا وہاں ’’رش‘‘ لے رہا ہے۔
ہر رٹو توتے کی طرح اس قصے کے توتے نے بھی پنجرے سے تو آزادی حاصل کرلی تھی مگر اپنے سامراجی آقا کے فلسفے، نظریے اور اُس کی زبان سے آزادی حاصل نہ کرسکا تھا۔ اُسے آزاد توتوں کی طرح کھلی فضا میں اُڑنا آتا تھا نہ اُن کی طرح سے اپنی مرضی کا بول بولنا۔ بے چارا کیا کرتا؟
آزاد توتوں کا قاعدہ ہے کہ ایسے توتے جو قیدِ غلامی سے چھوٹ کر آتے ہوں، انہیں سب آزاد توتے مل کر خوب ٹھونگیں لگاتے ہیں، تاکہ دماغ ٹھکانے آ جائے اور غلامی پر رضا مند ہوجانے کی کچھ سزا بھی مل جائے۔ چناں چہ سینما کے مالک نے دیکھا کہ اُس کا توتا ایک درخت کی شاخ پر دیگر توتوں کے کھڑکی توڑ ہجوم میں پھنسا ہوا ہے۔ سب اُس کے سرپر ٹھونگیں مار رہے ہیں اور وہ چِلّا چِلّا کر اُن سے اپیل کر رہا ہے:
’’قطار بنائیے جناب ۔۔۔ قطار بنائیے جناب!‘‘