اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں اب جب کہ محض چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں لیکن جو لوگ جوش جذبات میں اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کر چکے یا اس سے پہلے لاہور کے جلسے میں اس پر لعنت بھیج چکے، ان کا بھی دل نہیں چاہتا کہ اسمبلی کے رنگا رنگ ماحول سے قبل از وقت رخصت ہو جائیں، یعنی انہیں چند ہفتوں کی جدائی بھی گوارہ نہیں، جنوبی پنجاب کے صوبے کی محبت میں جن ارکان قومی اسمبلی نے رکنیت سے استعفا دیا تھا، انہیں اسپیکر ایاز صادق دوبار بلا چکے، وہ اس بات کی تصدیق کے لیے ان کے پاس نہیں گئے۔ 2014ء میں تحریک انصاف کے ان ارکان نے کہا تھا جو دھرنے سے پہلے مستعفی ہو گئے تھے ان مستعفی ارکان کے لیڈر بلا ناغہ کنٹینر سے اعلان کرتے تھے کہ ہمارے استعفے کیوں منظور نہیں کیے جاتے، ہم نے چوروں اور ڈاکوؤں کی اسمبلی پر لعنت بھیج دی ہے، ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے، یہ ایاز صادق کون ہوتا ہے جو ہمارے استعفے روک کر بیٹھا ہوا ہے لیکن ان مردان حریت میں سوائے مخدوم جاوید ہاشمی کے کوئی رجل رشید ایسا نہ نکلا جس نے اپنے استعفے کی تصدیق اسپیکر کے روبرو کی ہو‘ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے مسلم لیگ کے وہ کارکن اور رہنماء جن کی ابتدائی سیاسی تربیت جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہوئی ہے ان کا سیاسی مزاج روایتی لیگی سیاسی مزاج سے بہت ہی مختلف ہے ان میں جاوید ہاشمی کی تربیت تو سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے کی لہٰذا وہ ایک وکھری ٹائپ کے سیاسی کارکن ہیں قومی اسمبلی سے استعفا دیتے ہوئے اسمبلی کے ایوان میں کی جانے والی تقریر میں جو کچھ کہا وہ آج تک درست ہی ثابت ہو رہا ہے۔ وہ آج بھی اپنے کہے ہوئے الفاظ پر قائم ہیں اور دہراتے بھی رہتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے باقی مستعفی ارکان کئی ماہ کی مسلسل غیر حاضری کے بعد ایک دن ایوان میں پہنچے تو انہیں ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘‘۔ جیسے الفاظ بھی سننے پڑے۔ تحریک انصاف کے ان مستعفی ارکان نے اجلاس میں حاضری نہ ہونے کے باوجود رکنیت بھی انجوائے کی اس پورے عرصے کی تنخواہیں بھی وصول کیں جو ارکان کمیٹیوں میں تھے۔ انہوں نے تمام تر الاؤنس بھی لیے، پھر بھی صادق اور امین ہی ٹھیرے ان کی دیانتداری پر کوئی حرف آیا نہ ان سے کسی نے پوچھا کہ مستعفی تو آپ برضا و رغبت ہوئے تھے پھر واپس کیوں آئے؟
کچھ عرصہ ہوا لاہور کے جلسے میں بھی شیخ رشید اور عمران خان نے اسمبلی پر ’’لکھ لعنت‘‘ بھیجی لیکن استعفا پھر بھی نہیں دیا، اب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے چار ارکان پر بھی غالباً یہی رنگ چڑھ گیا ہے، وہ دو مرتبہ بلانے پر تو نہیں گئے ممکن ہے یہ حضرات جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبے کا نقشہ سنوارنے میں مصروف ہوں کیوں کہ ابھی تک ایسے صوبے کی حدود ہی واضح نہیں ہیں‘ اسمبلی میں ہوتے ہوئے ساڑھے چار سال میں ان کا ایک لفظ بھی ہمیں جنوبی پنجاب کے درد کے لیے نہیں ملا‘ اب عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ نعرہ لگا رہے ہیں حالاں کہ ان کے پاس کوئی پروگرام ہے اور نہ انہیں کچھ علم ہے ہر انتخابات سے پہلے ذاتی سیاسی مفادات جماعتی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ووٹ کے ذریعے ضرور مسترد کیا جانا چاہیے۔
ایک خبر کے پی کے سے آئی ہے کہ عمران خان نے اپنی جماعت کے جن بیس ارکان کو پارٹی سے نکالنے اور مطمئن نہ کرنے کی صورت میں ان کے کیس نیب کو دینے کا اعلان کیا ہے ان میں بہت سے ارکان حلفاً کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے ووٹ فروخت نہیں کیے بلکہ تحریک انصاف کے امیدواروں ہی کو ووٹ دیے ان کی بات میں وزن ہے تحریک انصاف کی قیادت یہ تو بتائے کہ اس کا کون سا امیدوار ہارا ہے؟ جو امیدوار ہارا ہے عمران خان اس امیدوارکا نام تو لیں۔