اِنقلابِ بے کتاب

406

انتخابی فضا بنی ہوئی ہو تو ہواؤں میں تقریریں بھرجاتی ہیں اور تقریروں میں ہوا۔ اگر سنیے تو ہر لفظ کانوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے، مگر سوچیے تو ہر مطلب ہوا۔ حزبِ موافق ہو یا حزبِ مخالف، ٹھوس بات کہنے کی کسی میں صلاحیت ہے نہ کسی کو ضرورت۔ ٹھوس بات کہنے کے لیے دماغ بھی ٹھوس ہونا چاہیے، ٹھُس نہیں۔ اور کیا ضرورت ہے ٹھوس بات کہنے کی؟ جب پھُس سے پھُس بات پر ہی داد و تحسین کے ڈونگرے برس رہے ہیں اور برستے ہی رہیں گے۔ ان میں ہر اِک کی تمنا ہے کہ اب ۔۔۔ اُس کے اپنے حق میں ’’آوے ای آوے‘‘ کے دِل خوش کُن نعرے برپا ہو جائیں اور فریقِ مخالف کے خلاف ’’جاوے ای جاوے‘‘ کے دِل شکن نعرے گونجنے لگیں۔ بھنگڑے ڈالے جانے لگیں۔ حال کھیلے جانے لگیں۔ کسی کو شیر قرار دیا جانے لگے اور کسی کو سب پہ بھاری۔ کوئی تبدیلی کی علامت بن جائے اور کوئی ۔۔۔ ٹھس!
یہ کچھ آج کی بات نہیں، اِس کوئے سیاست میں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔ لوگ اِنھی طریقوں سے بانس پر چڑھائے جاتے ہیں پھر کسی طریقے سے حلق میں بانس دے کر اُتارے جاتے ہیں۔ مگر بانس پر چڑھنے کا اتنا مزا ہے اور اس کے نشے میں اتنی کشش ہے کہ اِس کے نشئی حلق میں بانس دیے جانے کی سزا بھول جاتے ہیں۔ جھومتے جھامتے پھر سے میدان میں آجاتے ہیں کہ لوجی! ایک واری فیر ۔۔۔ یعنی ایک بار پھر ۔۔۔ سرِ بازار می رقصم!
ہمارے ایک سابق انقلابی لیڈر بھٹو صاحب جب آئے تو ماؤ کیپ پہن کر اسٹیج پر لہرائے اور ایک گانا گایا ۔۔۔ جو ریکارڈ پر موجود ہے ۔۔۔
’آئی ہوا، گئی ہوا، ساتھ لے چلی، چلے‘
پھر اِس کی تشریح میں اُنہوں نے ایک تقریر کی۔ یہ تقریر بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ بڑے انقلابی لحن و لہجہ میں فرمایا:
’’یہ ہوا سلامت علیوں کو ساتھ لے چلی چلے گی۔ یہ ہوا نزاکت علیوں کو ساتھ لے چلی چلے گی۔ یہ ہوا اَٹافٹ علیوں کو ساتھ لے چلی چلے گی۔۔۔‘‘
اگرچہ اِس فی البدیہہ تقریر کے بعد وزارتِ اطلاعات ونشریات کو ایک سوچی سمجھی وضاحت بھی جاری کرنی پڑی:
’’بھٹو صاحب کی مراد ’سلامت علی، نزاکت علی برادران‘ سے نہیں تھی، وہ اُن کے خلاف نہیں‘‘۔
تاہم ’’اٹافٹ علیوں‘‘ کا کوئی ذکر ہوا نہ کسی اٹافٹ علی نے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا۔ مگر جو ہَوا اُن کے گانے میں اور اُن کی تقریر میں بھری ہوئی تھی، وہ چلی اور خوب چلی۔ اُنہوں نے کسی کو ’’فکس اَپ‘‘ کیا اور کسی کو ’’فِٹ‘‘۔ پر آخر آخر میں یہ ہوا کہ:
چلی سمتِ غرب سے وہ ہَوا کہ چمن سرور کا جل گیا
بھٹو صاحب بہت ذہین، بہت دانش مند اور بہت دانا و بینا کہے جاتے تھے۔ ’’کہے جاتے تھے‘‘ کیا معنی؟ اب بھی کہے جاتے ہیں۔ مگر اُنہوں نے اپنے تمام تر زورِ بیان کے باوصف و باوجود اِس ملک میں کوئی دیرپا یا ’’جلدپا‘‘ انقلاب برپا نہیں کیا۔ لہٰذا ہماری سیاست کی ۔۔۔ وہی رفتار بے ڈھنگی، جو پہلے تھی، سو اَب بھی ہے! اُن کی ذہانت کا وہی حال ہوا کہ ۔۔۔ اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے!
بات یہ ہے کہ کوئی انقلاب ’’بے کتاب‘‘ برپا نہیں ہوتا۔ دُنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے اُن کی پشت پر کوئی نہ کوئی کتاب موجود تھی۔ سرخ دُنیا کے قائدِ انقلاب کارل مارکس کی بابت بھی اقبالؔ کا کہنا تھا کہ:
’نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب‘
کہ پیغمبر تو نہیں ہے لیکن بغل میں کتاب رکھتا ہے۔ ہمارے پاس تو پیغمبر انقلابؐ کی لائی ہوئی ’’الکتاب‘‘ موجود ہے۔ بقولِ پروین شاکر:
ہماری بے جہتی کا کوئی جواز نہیں
یہ دُکھ تو اُن کا ہے جن کی کوئی کتاب نہ ہو
آج کل جتنے لوگ تبدیلیوں یا انقلاب کی باتیں کررہے ہیں وہ ’’انقلابِ بے کتاب‘‘ کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے پاس انقلاب برپا کرنے کا کوئی لائحہ عمل ہے نہ طریقۂ کار۔ وہ اگر برسراقتدار آبھی گئے تو ۔۔۔ نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار اُن سے! ۔۔۔ لوگ ایک بار پھر دھوکا کھا جائیں گے۔ کوئی انقلاب نہ دیکھ پائیں گے۔ انقلاب کی بھی ’’پرورش‘‘ کرنی پڑتی ہے۔ حادثے کی طرح وہ بھی ’’ایک دم‘‘ نہیں ہوتا۔ انقلاب سے قبل معاشرے کی ذہن سازی کرنی ہوتی ہے۔ تربیت یافتہ افرادِ کار تیار کرنے ہوتے ہیں۔ انقلاب کے بعد کے مراحل پیشگی طے کرلینے ہوتے ہیں۔ انقلاب کے ممکنہ ردِّ عمل کی پیش بینی کرلینی ہوتی ہے، تاکہ انقلاب کو مستحکم رکھا جاسکے۔ ورنہ جوابی انقلاب آتا ہے اور سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ انقلاب کے تمام مدارج ہماری ’’کتاب‘‘ میں موجود ہیں۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا انقلابی رہنما:
کتاب خواں ہے، مگر صاحبِ کتاب نہیں!
سب کے سب ’کتاب‘ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن افسوس ایمان رکھتے نہیں۔ چوما چاٹی تو کرتے ہیں، پڑھتے نہیں۔ اور پڑھتے بھی ہیں تو سمجھتے نہیں۔ اِس کسوٹی پہ خود کو پرکھتے نہیں! ۔۔۔ ہم کیسے مان لیں کہ یہ صاحبِ کتاب بھی ہیں؟
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ’’دینی جماعتوں‘‘ اور اُن جماعتوں میں، جو دینی جماعتیں نہیں کہلاتیں، منقسم ہیں۔ کیوں بھئی؟ کلمۂ لااِلٰہ تو سب نے پڑھ رکھا ہے۔ کون انکاری ہے؟ مگر یہ کوئی نہیں سوچتا ۔۔۔ اور اقبالؔ کا سُجھایا ہوا یہ نکتہ کسی کو نہیں سوجھتا کہ:
زباں سے کہہ بھی دیا لااِلٰہ تو کیا حاصل؟
دِل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں!
ایسے میں انقلاب آئے تو کیسے آئے؟ انقلاب کے لیے رہنما کا ’’تعلیم یافتہ‘‘ اور پوری انقلابی ٹیم کا ’’کتاب یافتہ‘‘ ہونا ضروری ہے۔ تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے۔ ذہناً او رقلباً یکسو ہونا ضروری ہے۔ یک جہت ہونا ضروری ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انقلاب لانے کے لیے پوری قوم کو بے تفریق و تفرقہ متحدکرکے ’’ایک قوم‘‘ بنانا ضروری ہے۔ جب کہ ہماری ہر جماعت دوسری کو ’’دوسرا گروہ‘‘ ثابت کرکرکے قوم کو ’’تقسیم درتقسیم‘‘ کے عمل سے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں منہمک ہے۔ انقلاب آئے تو کیسے آئے؟ ہمارے ’’انقلابی رہنما‘‘ خود انقلابی خصائص سے محروم ہیں۔ بھلا اندھا اندھوں کی کیا رہنمائی کرے گا؟
پس وطنِ عزیز کی ہوائیں تقریروں سے بھرگئی ہیں اور تقریریں ہوا سے۔ کسی راہ نُما سے ذرا کہہ کر تو دیکھیے کہ:
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
سب کا کیسہ خالی ملے گا۔ زبان البتہ لفاظی سے لبریز ہوگی۔ اگر کوئی سچ مچ تبدیلی لانا چاہتا ہے، تو جس قسم کی تبدیلی وہ چاہتا ہے، اُسی قسم کی تبدیلی وہ پہلے اپنی ذات میں اور اپنی جماعت میں برپا کرے گا۔ تب کہیں جاکریہ دعویٰ کرنے کے قابل ہوگا کہ:
یہ چمن ہوگا سحر کے نُور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی