خوش فہمی

265

جس کا انتظار تھا وہ شاہکار فیصلہ آگیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہنا ہے کہ فیصلہ متوقع ہے البتہ جہانگیر ترین کی نااہلی پر دکھ ہوا ہے۔ ظاہر ہے اس صورت میں دھرنا تو نہیں دیا جاسکتا مگر بھنگڑا تو ڈالا جاسکتا ہے۔ عمران خان اس فیصلے پر بہت خوش ہیں، عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ کو کسی رنگروٹ کی طرح سیلوٹ پر سیلوٹ کیے جارہے ہیں۔ ان کے خیال میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے نئے پاکستان کی بنیاد ڈال دی ہے۔ اگر تاریخ نے انگڑائی لی تو کسی کو دیکھ کر مسکرائے گی نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ 13 اپریل 2018ء کا دن عوام کی آزمائش کا دن ہے، اس بیانیے کے بین السطور پر غور کیا جائے تو اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ 13 اپریل کو تیرا، تین ہونے والے موقعہ ملتے ہی اس دن کو یوم سیاہ قرار دے سکتے ہیں۔
میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے میاں نواز شریف کی مقبولیت پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ میاں نواز شریف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ہر دل عزیز قائد ہیں۔ اس شخص کو نااہل قرار دیا گیا ہے جسے عوام نے تین بار وزیراعظم منتخب کیا ہے۔ عوام تاحیات نااہلی کے فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے میاں نواز شریف کو پارلیمنٹ سے نکال دیا ہے، مگر عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ نون لیگ میاں نواز شریف کی رہنمائی میں عوام کی خدمت کرتی رہے گی۔ لیگی رہنماؤں کے بیانات کی روشنی میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر جذبات کی رو یہی رہی تو نواز لیگ ایم کیو ایم کے انجام سے دوچار ہوسکتی ہے۔ دو اور دو چار کے فارمولے کو تسلیم نہ کرنے والے ایسے ہی عمل سے دوچار ہوتے ہیں۔ جوڈیشل ایکٹوازم پر احفاظ الرحمن کی آزاد نظم پڑھ کر ان کی خوش فہمی پر حیرت ہوئی۔ انصاف کا طبل، جنگ کے طبل سے زیادہ ہولناک ہے مگر یہ ہولناکی فریادیوں کے دل دہلانے تک محدود ہے، انصاف گھر عدل کی زنجیر سے بے نیاز ہو تو فریادی کے آنسو کوئی نہیں پونچھتا، بدعنوان عدالتوں اور بدعنوان ججوں اور وکلا کو پھانسی پر نہیں لٹکایا جاتا فریادی کی فریاد کو تاخیر کی صلیب پر لٹکایا جاتا ہے اور جہاں تک عدالتوں کے دانت توڑنے کی نوید کا معاملہ ہے تو ہمیں پختون زبان کا یہ قول زریں یاد آرہا ہے کہ پوپلے کے منہ میں انگلی ڈالنے سے مت ڈرو۔
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان بارہا فرما چکے ہیں کہ جج کا عہدہ ملازمت نہیں سعادت ہے اور ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ جج کا عہدہ سعادت سے بڑا رتبہ ہے، مسند عدل پر براجمان شخص خدا کا نائب ہوتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ خدا کی نیابت کے بجائے شیطان کی جانشینی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ یہ ایک آفاقی اصول ہے کہ جج نہیں جج کا فیصلہ بولتا ہے، جج بولنے لگے تو اس کی جانب داری مشکوک ہوجاتی ہے، جب تک الزام ثابت نہ ہو اس کے بنیادی حقوق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ نظم نذر قارئین ہے۔
انصاف کا طبل بڑے زور سے بجا ہے
اب اس کی گونج تھمنے والی نہیں، جب جہاد عظیم
شروع کیا تو یہ رُکے گا نہیں، تھمے گا نہیں
راستہ صاف ہے سب سے پہلے تو ظالم، رشوت خور
عدالتوں کے دانت توڑے جائیں گے
آنسو بہاتے، مدت سے عدالتوں کے چکر لگاتے
فریادیوں اور ان کی ماؤں کے آنسو پونچھے جائیں گے
اب قافلہ رُکے گا نہیں، تھمے گا نہیں، بدعنوان عدالتوں
بدعنوان ججوں اور بدعنوان وکیلوں کا خاتمہ ہوگا
رشوت خور ججوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے گا
کوئی خوش فہمی میں نہ رہے، کالے چہرے
سب بے نقاب ہوں گے