’’مائی لارڈ!آپ کچھ ٹینشن میں دکھائی دیتے ہیں‘‘

315

دنیا میں نظام عدل نے شاید ہی کہیں یہ صورت اختیار کی ہو جو ہمارے ملک میں ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ معزز جج صاحبان کی عزت کی جائے۔ انہیں دیکھ کر ادب سے سر جھکا کر کھڑے ہوجائیں۔ مہذب کیا غیر مہذب سماج میں بھی ان لوگوں کی تکریم کی جاتی ہے جو ہر طرح کے تعصبات، مفادات اور ذاتی پسند ناپسند، دوستی اور دشمنی سے بلند ہوکر اپنے منصب کے تقاضوں کا احترام کرتے ہوئے انصاف کرتے ہیں۔ جن کے فیصلوں سے انتقام کی بو نہیں آتی۔ جج ڈنڈے کے زور سے عزت نہیں کراتے۔ یہ حکمرانوں کا شیوہ ہے۔ محترم چیف جسٹس ثاقب نثار فرماتے ہیں مجھے معلوم ہے ریٹائر منٹ کے بعد کوئی نہیں پوچھے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس کار نیلئس اپنے ہوٹل سے باہر آتے تھے تو انہیں دیکھنے والا ہر شخص ادب واحترام سے جھک جاتا تھا۔ ججوں کو عزت کرانے کے لیے کسی دباؤ کسی قانون کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی معاشرہ انہیں بھرپور عزت دیتا ہے۔ عدلیہ کے احترام کے لیے جو قوانین موجود ہوتے ہیں عموماً معزز جج صاحبان انہیں استعمال نہیں کرتے۔ جہاں ججوں کو اپنے احترام کے لیے سختی کرنی پڑے وہاں معاشرہ ہی قصور وار نہیں ہوتا معزز جج صاحبان کا بھی اس میں کردار ہوتا ہے۔ سعد رفیق کی پیشی کے موقع پر محترم جج صاحب اور ان کے درمیان مکالمہ ملاحظہ فرمائیے:
’’سعد رفیق روسٹرم پر حاضر ہو۔ ساتھ لوہے کے چنے بھی لے کر آئے‘‘۔
’’آپ نے مجھے یادکیا‘‘۔
’’یاد نہیں کیا طلب کیا‘‘۔
’’بولنے کی اجازت ہے‘‘۔
’’جب تک ہم نہ کہیں چپ رہیں‘‘۔
’’تو میں بیٹھ جاؤں‘‘۔
’’جب تک نہ کہیں کھڑے رہیں‘‘۔
’’تو میں چلا جاتا ہوں‘‘۔
’’گئے تو توہین عدالت لگے گی‘‘۔
’’میں عدلیہ کے لیے جیل گیا ہوں‘‘۔
’’پھر جانا پڑ سکتا ہے‘‘۔
’’12مرتبہ گیا ہوں‘‘۔
’’پھرجانا پڑسکتا ہے‘‘۔
’’جہاں کل گئے تھے وہاں جانا نہیں چاہیے تھا‘‘۔
’’چائے پینے گیا تھا‘‘۔
’’سفارش کرانے گئے تھے‘‘۔
اس مکالمے میں معزز جج صاحب کے رویے میں سے عزت اور عدالت کا وقار کشید کرکے دکھائیے۔ اعتزاز احسن کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ’’مائی لارڈ آپ کچھ ٹینشن میں دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
محترم چیف جسٹس صاحب منظرنامے پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ جہاں دیکھیے وہ ہی وہ ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جب اخبارات کے صفحات پر، ٹی وی چینلوں کی خبروں اور بریکنگ نیوز میں وہ نمایاں نہ ہوں۔ ہر روز وہ کسی مجلس میں موجود ہوتے ہیں اور بے دریغ اظہار خیال فرما رہے ہوتے ہیں۔ نہ جانے وہ کون خوش نصیب تھے جنہیں ایسے جج دیکھنے کو ملے جو مجلس آرائی اور لوگوں سے ملنے جلنے سے گریز کرتے تھے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی شان یہی بتائی جاتی تھی کہ وہ شہرت اور تقریبات میں شرکت سے نہ صرف احتراز کرتے تھے بلکہ اسے اپنے منصب کے تقاضوں کے خلاف سمجھتے تھے۔ ملک کی فعال ترین شخصیت کا اعزا اگر کسی کو دیا جاسکتا ہے تو وہ معزز چیف جسٹس صاحب ہیں۔ ڈاکٹرز کی ہڑتال پر کوئی برہم ہے تو معزز چیف جسٹس صاحب، اسپتالوں کے دورے کوئی کر رہا ہے تو معزز چیف جسٹس صاحب، عوام کو صاف پانی، تعلیم اور صحت دینے کے عزم کا کوئی اظہار کررہا ہے تو معزز چیف جسٹس صاحب، سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں کی کارکردگی کا کوئی جائزہ لے رہا ہے تو چیف جسٹس صاحب، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو عدالتوں میں طلب کرکے ان سے صوبوں کے معاملات پر کوئی جواب طلبی کررہا ہے تو چیف جسٹس صاحب، وزرائے اعلیٰ کی عدم کارکردگی پر کوئی ان کی سرزنش کررہا ہے تو چیف جسٹس صاحب، وکلا کے حقوق کے لیے کوئی سرگرم ہے تو چیف جسٹس صاحب، جج صاحبان کے لیے بابا رحمتے کی اصطلاح کوئی استعمال کر رہا ہے تو چیف جسٹس صاحب، تقریر کی طوالت کے بارے میں عورتوں کے اسکرٹ کا کوئی حوالہ دے رہا ہے تو چیف جسٹس صاحب، اپنے تنخواہ نہ لینے کے ارادے پر ساتھی ججوں کی پریشانی کا تذکرہ کرنے والے ہیں تو معزز چیف جسٹس صاحب، سیاست دانوں کے علاوہ اگر کسی کے بیانات سیاست دانوں جیسے دکھائی دیتے ہیں تو وہ معززچیف جسٹس صاحب۔ ہر معاملہ سوئے چیف جسٹس رواں ہے۔ ہر معاملے کی طرف چیف جسٹس صاحب رواں ہیں۔ یہ سب حکمرانوں جیسے اطوار ہیں جب کہ ججوں کا کام حکمرانی کرنا نہیں ہوتا۔ شہرت کی چاہ کبر سے قریب قریب ہی پائی جاتی ہے۔ ہر سمت محاذ کھولنے سے بہتر تھاچیف جسٹس صاحب صرف عدلیہ کے شعبے پر توجہ مرکوز کرتے۔ ماتحت عدالتوں کے مسائل حل کرتے۔ ان لاکھوں کیسز پر توجہ دیتے جو عدالتوں کی عدم توجہ کا شکار ہیں۔ عام آدمی کی شکایتوں اور اس تذلیل کی فکر کرتے جو عدالتوں میں لوگوں کے ساتھ معمول ہے۔
کھیل کے اصولوں کی پابندی کوئی نہیں کررہا۔ عدالتیں قوانین سے نہیں اخلاقی اقدار سے اپنی عزت کرواتی ہیں۔ عزت کا تعلق انصاف کی فراہمی سے ہوتا ہے جو آج کہیں نظر نہیں آرہا۔ عام آدمی کو انصاف دینے کے لیے کوئی سرگرم نہیں۔ اپنی تمام تر فعالیت کے باوجود چیف جسٹس ثاقب نثار نے عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کے ضمن میں کچھ نہیں کیا۔ جج صاحبان عوام میں موجود عوامی شخصیات کی طرح نہیں ہوتے۔ ججوں کا احترام انصاف اور عدالتی فیصلوں سے ہوتا ہے روزانہ سامنے آنے سے نہیں۔ ناانصافی کی ایک کلاسیکل قسم وہ ہے جس میں جج صاحبان بہت زیادہ ریمارکس دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے فردکا ایک طرح سے بلا سماعت فیصلہ کردیتے ہیں۔ فوری، بلا سوچے سمجھے اور جلدبازی میں کیے گئے فیصلے بھی ناانصافی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جو جج صاحبان اپنے کمرہ عدالت تک محدود رہتے ہیں ان ججوں کے مقابلے میں آزادانہ اور دباؤ میں آئے بغیر فیصلے سنا سکتے ہیں جنہیں عوامی پزیرائی کی فکر ہوتی ہے۔