ہر ایک کے دل میں کراچی کا درد جاگ اٹھا

242

آج ہر سیاسی جماعت کراچی میں اپنے نمبر گیم کے چکر میں پڑی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پچھلے ایک ہفتے میں دو مرتبہ کراچی کے دورے پر آئے اور انہوں نے مسلم لیگ ن کے مختلف اجتماعات سے خطاب کیا کچھ اہم ملاقاتیں کیں جن میں ایم کیو ایم بہادرآباد کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے مذاکرات کیے اور آنے والے انتخابات میں ایم کیو ایم سے اتحاد کرکے کراچی کی ہر نشست پر مشترکہ امیدوار لانے کا پروگرام بنایا ہے۔ شہباز شریف نے اگلے انتخاب کے بعد کراچی کو نیویارک بنانے کا بھی اعلان کیا۔ اور یہ بھی کہا کہ کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے۔
اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ شہباز شریف کراچی سے الیکشن لڑیں گے۔ اس سے قبل عمران خان بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کراچی سے بھی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ شہباز شریف کے ذہن میں اس کی دو وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ کراچی میں امن و امان کے قیام کا کریڈٹ ن لیگ لیتی ہے کہ اس کے دور حکومت میں کراچی کا امن لوٹ آیا اور یہ کہ شہر سے خوف کی و ہ فضاء ختم ہو گئی جو چند سال پہلے تک کراچی کے شہریوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھی دوسرے یہ کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے عدالتی ٹرائل کی وجہ سے ان سے ہمدردی کی ایک لہر پورے ملک میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس کا فائدہ الیکشن میں ن لیگ کو کراچی سے بھی ملنے کی امید ہے، اسی لیے وہ کراچی کی ہر سیٹ پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
ایک لحاظ سے تو یہ اچھی بات ہے کہ آج ہر پارٹی کراچی میں اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتی ہے ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ کراچی میں لسانی سیاست کے بجائے قومی سطح کی سیاسی ہلچل ہو اور تمام قومی جماعتیں اس میں سرگرمی سے حصہ لیں لیکن ریکارڈ کی درستی کے لیے چند نکات پر غور کرنا ضروری ہے۔ شہباز شریف صاحب کا یہ کہنا کے شہر کراچی میں امن کے قیام کا تمام کریڈٹ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کو جاتا ہے۔ ن لیگ کا یہ دعویٰ صداقت پر مبنی نہیں ہے اس لیے کہ اس سے قبل دو مرتبہ نواز شریف ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور ان کے دور میں کراچی میں بوری بند لاشیں ملتی رہیں، بھتا خوری سے کراچی کے تاجر پریشان تھے، شام گئے کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔ ایم کیو ایم کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے ہر فرد خوف کا شکار تھا۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ عام تھی۔ آئے دن ہڑتال سے شہر کراچی کو بند کردیا جاتا تھا، ایم کیو ایم کی شکل میں را کے ایجنٹوں کو کھلے عام اجازت تھی کہ وہ شہر میں ڈاکٹروں، وکیلوں، استادوں اور دانشوروں کو دن دہاڑے قتل کر تے رہیں کوئی قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوا۔ شہر کراچی خوف کے سائے میں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم جو ان سب کی ذمے دار تھی مرکز میں نواز شریف ان کو گلے سے لگا کر رکھتے تھے۔
جب اسلامی جمہوری اتحاد قائم تھا اور اس کے تحت انتخاب میں حصہ لینا تھا نواز شریف جو اتحاد کے صدر تھے وہ جب بھی کراچی آتے تو اپنے جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور سے ملنے کے بجائے ائر پورٹ سے سیدھے نائن زیرو جاتے تھے اور یہ ہر دفعہ کا یہی طریقہ کار تھا وہ ایم کیو ایم کی محبت میں اتنا گرفتار تھے کہ انہوں نے اتحاد کے امیدواروں کے بجائے ایم کیو ایم کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کردیا اور اتحاد کے امیدواروں کو ٹکٹ ہی جاری نہیں کیے، وہ تو اتحاد کے رہنماؤں کا گرما گرم اجلاس ہوا اس میں اس فیصلے پر شدید تنقید کی گئی اور اکثریت کی شدت سے مخالفت کی وجہ سے نواز شریف کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے کراچی میں نواز شریف کے دوست صلاح الدین صاحب اور حکیم سعید کو شہید کیا گیا۔ یہ سب اہم قتل ان کے دور حکومت میں ہوئے لیکن نواز شریف نے ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
پچھلے تیس برسوں میں اس شہر کراچی میں جتنی بوری بند لاشیں ملی ہوں جتنے نوجوانوں کو قتل کیا گیا اپنے جتنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جتنے ڈاکٹروں، وکیلوں، اساتذہ کرام اور علمائے دین قتل ہوئے ہیں ان کی ذمے دار ایم کیو ایم کے ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی ہیں، اس لحاظ سے کراچی کی بدامنی کی ذمے دار تین جماعتیں ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور پی پی پی ہیں۔ ایک چھوٹے سے مضمون ان ساری تفصیلات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا جو زمینی حقائق ہیں ان کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے بعد دوسری مصیبت جو کے الیکٹرک کی شکل میں اہل کراچی کے سر پر آن پڑی ہے اس پر کسی اور موقع پر بات ہو گی کہ کس طرح یہ تینوں جماعتیں اس مصیبت کی ذمے دار ہیں۔
کراچی میں آج جو امن امان قائم ہے اور کراچی کی جو رونقیں بحال ہوئی ہیں وہ کن کن کی قربانیوں کا نتیجہ ہیں اور کون کون سے اداروں کی کارکردگی ہے جن کی وجہ آج کراچی کے شہری سکون کا سانس لے رہے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کا پہلا کریڈٹ تو جماعت اسلامی کو جاتا ہے جس نے پچھلے تیس برسوں سے ایم کیو ایم کی دہشت کا مقابلہ اپنے نوجوانوں کا لہو دے کر کیا ہے۔ جماعت اور جمعیت کے سیکڑوں کارکنوں نے 1986 سے 2016 تک ایم کیو ایم کا ہر میدان میں مقابلہ کیا ہے جب ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا تو جماعت کے جن کارکنوں نے ناظم اور کونسلروں کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیا ان کے گھروں پر بیٹھ جاؤ یا لیٹ جاؤ کے نعرے لکھے گئے اور جن انتخابات میں ایم کیو ایم نے حصہ لیا تو جماعت کے امیدواروں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی جاتی تھی لیکن ہر طرح کے خوف کے ماحول میں جماعت کے کارکنان میدان میں رہے اس وقت ن لیگ کے امیدوار اور نہ پی پی پی کے امیدوار ایم کیو ایم سے مقابلے کے لیے سامنے آتے تھے۔
کراچی کے امن کا دوسرا کریڈٹ ہماری فوج اور رینجرز کو جاتا ہے کہ جنہوں نے نائن زیرو پر چھاپا مارا اور وہاں سے ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا ورنہ کراچی کا کوئی شہری اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ نائن زیرو کے قریب بھی کوئی پھٹک جائے اور رینجرز کے جوانوں نے بھی اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں پھر 22 اگست 2016 کی الطاف حسین کی تقریر اور پاکستان مخالف نعروں کے بعد جو کارروائیاں کی گئیں اس نے ایم کیو ایم کے غبارے سے ہوا نکال دی اور ایم کیو اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے کہ یہ کراچی میں کسی سے اتحاد نہیں کرتی تھی آج ان کے دھڑے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ پی ایس پی تحریک انصاف سے محبت کی پینگیں بڑھارہی ہے، بہادرآباد گروپ ن لیگ کی طرف جھک رہا ہے فاروق ستار گروپ بھی کسی قومی جماعت کا سایہ حاصل کرنے کی فکر میں ہے اب آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔