خطرناک اعصابی بیماری میں مبتلا میمونہ کی کہانی

105

زندگی بھی کیا عجیب چیز ہے کہیں قوس قزح سست رنگی ہے تو کہیں خوشی ، سر شاری اور سر مستی ۔ یہاں کوئی خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے تو کوئی اپنے دکھ کو رو رہا ہے ۔ ہر گھڑی اپنا روپ بدلتی ہماری یہ زندگی بہت حسین اور خوبصورت نظر آتی ہے ، پر زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب رنگ اور نور بھری یہ دنیا خود پر بوجھ بن جاتی ہے ، پھر جینے کا مزہ باقی نہیں رہتا ۔ اپنی زندگی جینے کی خواہش نہیں رہتی ۔ گویا زندگی پانی کی طرح بے رنگ ، بے بو اور بے ذائقہ ہو جاتی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ زندگی کا سارا لطف صحت و تندرستی ہی سے وابستہ ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں صحت کے حوالے سے عدم آگاہی اور صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے معاشرے کے وہ افراد جو کسی بھی قسم کی موذی ، جان لیوا یا خطرناک بیماری کا شکار ہیں ان کی زندگی بے مزہ ہو کر رہ گئی ہے مگرMultiple Sclerosis نامی اعصابی مرض میں مبتلا16 سالہ میمونہ ان لوگوںمیں شامل نہیں جو اپنے مرض سے بیزار ہو اور زندگی کو بوجھ سمجھے ۔ ہم نے اس مرض سے نبرد آزما میمونہ سے اس کے خیالات جاننے کی کوشش کی ہے جو نذر قارئین ہے ۔
میمونہ آٹھویں جماعت تک ایک ہونہار طالبہ تھی ، سب کچھ ٹھیک تھا ، گھر ، اسکول ، اساتذہ ، سہیلیاں اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں ۔ پھر قدرت نے کچھ اور چاہا اور وہ Multiple Sclerosis کا شکار ہو گئی ۔ پھر جیسے زندگی تھم سی گئی ، وہ ایک محنتی طالبہ تھی ۔ آٹھویں کلاس میں سب سے پہلے اس کی یادداشت متاثر ہوئی ، جویاد کرتی بھول جاتی ، پھر کچھ دنوں کے بعد اس کی بینائی متاثر ہونے لگی ۔ یادداشت اور بصارت کی خرابی نے اسے تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور کر دیا ،ا س صورتحال میں جب ڈاکٹروں کومعائنہ کرایا گیا اور ڈاکٹروں کے مشورے سے MRI کرائی گئی تب پتا چلا کہ میمونہ Multiple Sclerosis میں مبتلا ہو چکی ہے ۔ اس مرض نے اسے وہیل چیئر پر لا بٹھایا ہے ۔ اب اسے بھوک نہیں لگتی ، کچھ کھا پی نہیں سکتی ، کھائے تو ہضم نہیں ہوتا ۔ نیند نہیں آتی ، آنکھ لگے تو ہلکی سی آہٹ پر اٹھ جاتی ہے اور جسم میں کپکپی سی ہونے لگتی ہے ۔ آنکھ کے پپوٹے بہت تیزی سے پھڑکتے ہیں ۔ دماغ گھومنے لگتا ہے ، دیکھنا پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے ۔ جسم میں تھر تھراہٹ اور آنکھوںمیں درد ہونے لگتا ہے ، کھانا حلق سے نہیں اترتا ، پانی پینے سے گلے میں پھندا سا لگ جاتا ہے ۔ میمونہ کے چمکیلے بال بھی اسی مرض کی نذر ہو کر جھڑ گئے ۔رات کو اگر طبیعت بگڑ جائے تو بے ہوشی کی سی کیفیت ہو جاتی ہے ۔ رات کے وقت ٹرانسپورٹ بھی آسانی سے میسر نہیں آتی ۔ اسٹریچر پر ڈال کر اسپتال لے جانا پڑتا ہے جہاں چار چار دن تک بے ہوش رہتی ہے ۔
میمونہ کا فیورٹ سبجیکٹ کمپیوٹر سائنس ہے اور وہ بڑی ہو کر انجینئر بننا چاہتی ہے ۔میمونہ کو اسپورٹس میں فٹبال اور کھانے میں بریانی اور اسپیگٹی پسند ہے ،صحت مند ہو کر وہ خود بھی کوکنگ کرنا چاہتی ہے ، کہانیاں پڑھنے کا شوق ہے ۔ ٹی وی پروگرامات بھی دیکھتی ہے ،Peace Tv پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا پروگرام اسے بہت پسند ہے ۔میمونہ ، ڈاکٹر واسع شاکر کی نگرانی میں زیر علاج ہے ، اسے ڈاکٹر پر پورا اعتماد ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس سے ان شاء اللہ ایک دن وہ ضرورمکمل صحت یاب ہو جائے گی ۔میمونہ کا پیغام یہ ہے کہ مریض ہمت نہ ہاریں ، جو مریض غربت کی وجہ ے علاج معالجے کی سکت نہیں رکھتے ، حکومت اور اہل خیر حضرات کو ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی جلد صحت یاب ہو کر معاشرے کے لیے کار آمد فرد بن سکیں ۔
میمونہ کے والدین نے بتایا کہ پاکستان میں اس مرض کے علاج کے لیے سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ ایمر جنسی کی صورت میں بچی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی شدید اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ۔ سرکاری اسپتال ایڈ مٹ کرنے پر تیار نہیں ہوتے ،بس کسی طرح جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھر پہلے اس بیماری کی ادویات نہیں ملتی تھیں ،ا ب ملتی ہیں تو بہت زیادہ مہنگی ہیں ۔ ایک مہینے کی دواایک لاکھ روپے سے اوپر کی ہوتی ہے ۔ غریب افراد مہنگا علاج کہاں سے کروائیں؟ انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ حکومت اور مخیر حضرات سے در مندانہ اپیل کی کہ ان کی بچی کا بہترین علاج کرانے میں ان کی مدد کریں ۔