نادرا کی لوٹ مار

195

عوام کو شناخت دینے والے ادارے نادرا نے عوام پر ایک اور ظلم ڈھا دیا ہے ۔ اب تک تو اس ادارے کا معمول تھا کہ شناختی کارڈ کے متمنی افراد کو طرح طرح سے تنگ کیا جائے مگر اب اس نے عوام کو تنگ کرنے کا نیا طریقہ نکالا ہے ۔ شناختی کارڈ کی فیس میں سو فیصد تک ظالمانہ اضافہ کر دیا ہے تاکہ لوگ نہ فیس دے سکیں اور نہ کارڈ بنانا پڑے ۔ چنانچہ فوری طور پر یہ ہوا ہے کہ نادرا کے دفاتر پر سے رش چھٹ گیا ہے ۔ عام لوگوں کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ نادرا کا پیٹ بھر سکے ۔ 1973-74ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کا ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے شناختی کارڈ کی پابندی کا آغاز کیا تھا ۔ اس وقت یہ کام نہ اتنا مشکل تھا نہ مہنگا ۔ شناختی کارڈ بغیر کسی دشواری کے بن جاتے تھے مگر ایک نئے ادارے نادرا( نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کا جب سے قیام عمل میں لایا گیا قومی شناختی کارڈ کا حصول دشوار ترین ہو گیا ۔ دوسری طرف ہر دفتر کے باہر منڈلانے والے ایجنٹ کچھ زاید رقم لے کر کارڈ بنوا کر آپ کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ سب اعتراضات دھرے رہ جاتے ہیں ۔ یہ کام ملی بھگت سے ہوتا ہے اور اندر بیٹھے ہوئے اہلکاروں کا بھی حصہ ہوتا ہے ۔ ایسا ہی پاسپورٹ آفس پر ہوتا ہے ۔ نادرا نے دعویٰ کیا ہے کہ فیس بڑھانے کے باوجود اسے خسارہ ہور ہا ہے ۔ عدالت عظمیٰ میں نادرا نے رپورٹ جمع کرائی ہے کہ اسے ہر کارڈ کے اجراء پر 40 روپے کا نقصان ہوتا ہے ۔ نادرا نے اسمارٹ کارڈ کی فیس 4 سو سے بڑھا کر 750 روپے کر دی ہے ۔ ارجنٹ کارڈ کی فیس 800 سے 1150 کر دی گئی اور ایگزیکٹو کارڈ 16 سو سے ڈھائی ہزار ہو گئی ۔ یہی شرح کارڈ کی تجدید، اس کی نقل یا اس میں کسی تبدیلی کے لیے مقرر کی گئی ہے ۔ یہ عوام پر اضافی بوجھ ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔ نادرا کا دعویٰ ہے کہ یہ اضافہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر کیا گیا ہے چنانچہ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ عدالت عظمیٰ نوٹس لے۔ جماعت اسلامی پاکستان واحد جماعت ہے جو نادرا کی حرکتوں کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے ۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن متاثرین سے مل کر مہم چلاتے رہے ہیں ۔ امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے قومی شناختی کارڈ کی فیس میں 100 فیصد اضافے کی مذمت کرتے ہوئے اسے عوام کے ساتھ نا انصافی قرار دیا ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت آئندہ انتخابات تک عوام کو مفت شناختی کارڈ فراہم کرے اور فیس میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے ۔ بڑی تعداد میں لوگوں کے شناختی کارڈ کی مدت ختم ہو چکی ہے چنانچہ وہ ووٹ نہیں دے سکیں گے ۔ ویسے بھی یہ ایک احمقانہ حرکت ہے کہ شناختی کارڈ پر اپنی مرضی سے آخری تاریخ ڈال دی جائے ۔ نوجوانوں کے کارڈ کی مدت 5 سال مقرر کی گئی ۔ مگر کیوں؟ صرف اس لیے کہ دوبارہ فیس لی جائے ، دوبارہ پریشان کیا جائے ۔ پہلے شناختی کارڈ پر اس کے ایکسپائر ہونے کی تاریخ نہیں ہوتی تھی مگر اب تو نئے نئے تماشے ہو رہے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی عوام کے حق میں نہیں ۔