خواجہ آصف بھی نا اہل

333

خواجہ آصف بھی عمر بھر کے لیے نا اہل قرار دے دیے گئے ۔ یہ پورے پاکستان کے لیے باعث شرم ہے کہ اس کے وزیر اعظم کے بعد اس کا وزیر خارجہ بھی نا اہل نکلا ۔ ابھی کل تک تو وہ بیرون ملک خارجہ امور میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے اور پاکستان کی پہچان بنے ہوئے تھے ۔ مگر عدالت عالیہ اسلام آباد کے فل بینچ نے خواجہ آصف کے خلاف فیصلہ سنا دیا ۔ ان کے پاس بھی ایک خلیجی ملک کا اقامہ تھا اور عرب ممالک میں اقامہ ان کو دیا جاتا ہے جو وہاں ملازمت کر رہے ہوں ۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تاویل پیش کی ہے کہ عرب ممالک میں اقامہ ویزے کا متبادل ہوتا ہے ۔ بہتر تھا کہ وہ یہ دلیل دیتے ہوئے کچھ معلومات حاصل کر لیتے ، خود خواجہ آصف یا نواز شریف ہی سے پوچھ لیتے، ویزا پاسپورٹ پر لگتا ہے جو عرب ممالک میں کفیل کے پاس جمع ہو جاتا ہے ۔ وہاں ملازمت کرنے والے کو اقامہ دیا جاتا ہے جو اس بات کاثبوت ہوتا ہے کہ یہ ’’ خارجی ‘‘ مملکت کا ملازم ہے ۔ کہیں چیکنگ کے موقع پر پولیس بھی اقامہ طلب کرتی ہے یہ جاننے کے لیے کہ کوئی غیر ملکی غیر قانونی طور پر تو مقیم نہیں ہے ۔ خواجہ آصف کا اقامہ نہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک سے باہر ملازمت کر رہے تھے بلکہ ان پر اثاثے چھپانے کے الزامات بھی ہیں ۔ میاں نواز شریف نے تو یہ عذر پیش کیا تھا کہ وہ دبئی میں ملازمت ضرور کر رہے تھے مگر تنخواہ نہیں لیتے تھے ۔ خواجہ آصف نے یہ عذر بھی پیش نہیں کیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ معاوضہ بھی وصول کرتے تھے ۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کسی دوسرے ملک کے ملازم ہوں۔ اگر کبھی دو ممالک میں مفادات کا تصادم ہو تو ایسے لوگ جس ملک کا کھاتے ہیں اسی کا گائیں گے ۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ یہی خواجہ آصف پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی طویل غیر حاضری کے بعد واپسی پر بہت زور و شور سے انہیں شرم دلا رہے تھے کہ کچھ حیا کرو ، کوئی اخلاقیات بھی ہوتی ہے ، کوئی ایتھکس بھی ہوتی ہیں ۔ اور خود وہ تمام اخلاقیات ، تمام شرم و حیا بھولے ہوئے تھے کہ اس وقت بھی وہ کسی اور ملک کے ملازم تھے ۔ ن لیگ کے خواجگان کو اب بھی ہوش نہیں آیا ۔ رانا ثناء اللہ نے عدالت کے فیصلے پر کہا کہ جتنی اچھل کود مچانی ہے مچا لیں ، اصل فیصلہ تو عوام کا ہو گا ۔ عدالت عالیہ کے فیصلوں کو اچھل کود کہنا کسی سمجھدار شخص کو زیب نہیں دیتا لیکن شاہ کے وفا دار شاہ سے بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں ۔ خواجہ آصف کے بعد اور لوگ بھی قطار میں ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال کے پاس بھی سعودی عرب کا اقامہ ہے ۔ ان کے لیے بہتر تھا کہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی مستعفی ہو جاتے لیکن وہ آخری گیند تک کھیلنا چاہتے ہیں ۔ ایک دن پہلے بدھ کو انہوں نے بھی ’’ شاہ ‘‘ کی محبت میں وہ قرض اتارے جو ان پر واجب نہیں تھے ۔ وہ سی پیک کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پر پلٹ پڑے ۔ جولائی 2017ء کے بعد ن لیگ کے حواریوں کا یہ رواج بن گیا ہے کہ بات کہیں کی ہو ، تان عدالتوں پر ٹوٹتی ہے ۔ احسن اقبال نے فرمایا’’ چیف جسٹس کو ہمیں طعنے دینے کا اختیار نہیں ، بس بہت ہو چکا ، سیاستدانوں کی بھی عزت ہے ، الزام نہ لگائیں ‘‘۔ اصولی طور پر تو ان کی بات بالکل درست ہے کہ ہر شخص کی عزت ہوتی ہے لیکن اس وقت تک جب تک وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے ۔ احسن اقبال چونکہ وزیر داخلہ ہیں اور تمام ایجنسیاں ان کے اختیار میں ہیں ۔ لیکن یہ ایجنسیاں کسی کو اٹھا کر غائب کر دیتی ہیں ، گھروں میں گھس کر عورتوں تک کو بے عزت کرتی ہیں۔ احسن اقبال اپنی ما تحت ایجنسیوں اور پولیس کو بتائیں کہ ہر ایک کی عزت ہوتی ہے اور کسی پر الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے جیسا کہ انہوں نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ غلط کام کیا ہے تو عدالت میں ثبوت دیں ۔ اب اگر کل کلاں کو وہ بھی اقامے کی زد میں آ گئے تو کیا عزت رہ جائے گی ۔ کوئی پاکستان کی حکومت میں رہ کر کسی دوسرے ملک کا اقامہ رکھے تو کیا یہ بڑی عزت کی بات ہے؟ ویسے پروفیسر احسن اقبال کو کوئی فرق بھی نہیں پڑے گا ۔ برسوں پہلے انہوں نے بتایا تھا کہ بطور پروفیسر ان کی تنخواہ لاکھوں میں ہے۔ کسی دوسرے ملک میں جا کر ملازمت کرنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن ایسے لوگ پاکستان کی سیاست اور سیادت میں حصہ نہ لیں ۔ ایسے کتنے ہی اعلیٰ افسران ہیں جو دہری شہریت کے مالک ہیں ۔ انہیں کوئی ایک شہریت ترک کر دینی چاہیے تاکہ کسی ایک سے وفاداری نباہ سکیں ۔ جہاں تک خواجہ آصف کی نا اہلی کا تعلق ہے تو انہوں نے کبھی اپنی اہلیت ثابت ہی نہیں کی ۔ عمران خان نہال ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈان کی بڑی وکٹ گرا دی لیکن ان کے انتہائی قریبی رفیق اور مالی معاون جہانگیر ترین بھی تو نا اہل ہو چکے ہیں ۔ خواجہ آصف عدالت عظمیٰ میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں جو آئین کی شق62-1-F کے تحت پہلے ہی نواز شریف کو نا اہل کر چکی ہے ۔ لیکن بہر حال یہ خواجہ آصف کا قانونی حق ہے کہ وہ آخری لڑائی لڑ لیں ۔ نا اہل افراد کی توقعات اب اگلے عام انتخابات سے ہیں کہ عوام ان کے حق میں فیصلہ دیں گے ۔