اچھے دن جو گزرے ہیں، ان کی باتیں یاد آتی ہیں!

538

1977ء کے اوائل کا ذکر ہے۔ جامعہ کراچی کی سماعت گاہِ فنون سامعین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مقررین میں طالبانِ علم بھی تھے اور صاحبانِ علم بھی۔ اُبھرتے ہوئے پُرجوش اور شعلہ بیان طالب علم مقررین بھی تھے اور آتش بیان و آتش بجان راہ نما بھی۔ ڈائری میں جس ترتیب سے خطاب کنندگان کے اسمائے گرامی درج ہیں وہ کچھ یوں ہیں: احمد حاطب صدیقی، محمود احمد اللہ والا، زاہد حسین بخاری، عبدالحمید چھاپرا، دوست محمد فیضی، جنید فاروقی، ظہور الحسن بھوپالی اور سید منور حسن۔
جذبات سے بھرا ہوا اور جوش سے بپھرا ہوا آرٹس آڈیٹوریم۔ حاضرین و سامعین کا مجمع کسی سمندر کی لہروں کی طرح باربار اوپر کو اُٹھتا اور موجوں ہی کی سی بے تابی کے ساتھ نشستوں پر بیٹھ جاتا۔ اسٹیج سے یہ منظر دیدنی تھا۔ طلبہ و طالبات کا اُمڈ اُمڈ کرآتا ہوا ہجوم سماعت گاہ کے اسٹیج کے اوپر نیچے، دائیں بائیں اور آگے پیچھے تک آپہنچا تھا۔ شہ نشین پر بیٹھے ہوئے مقررین بھی مشاقِ دیدو شنید سامعین میں گھِر گئے تھے۔ جنہیں اندر آنے کا موقع نہیں مل سکا تھا وہ راہ داریوں میں کھڑے ایک دوسرے کے کندھوں کے اوپر سے اُچک اُچک کر دروازوں سے اندر جھانک رہے تھے۔ ہر طرف ہجوم ہی ہجوم تھا۔ سامنے بپھرا ہوا ہجوم، نیچے زمین پر بیٹھا ہوا ہجوم، دائیں بائیں ایک دوسرے پر گرتا ہوا ہجوم، سماعت گاہ کی نشستوں پر نیچے سے اوپر تک جما ہوا ہجوم اور دروازوں اور روشن دان کے دریچوں میں سے جھانکتا ہوا ہجوم۔
ہر بات پر نئے نئے نعرے ایجاد ہورہے تھے۔ پوری قوت سے لگائے جانے والے نعروں سے، سماعت گاہ کے باہر بہت دور تک کی فضا گونج رہی تھی، جس کے باعث آنے والوں کا ہجوم تھا کہ اُمڈا جارہا تھا۔ جذبات تھے کہ قابو ہی میں نہیں آرہے تھے، لوگ دیوانہ وار پکارے ہی جا رہے تھے:
’’لا شرقیہ، لا غربیہ ۔۔۔ اسلامیہ، اسلامیہ‘‘
’’پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔ لا اِلٰہ اِلا اللہ‘‘
’’آئینِ ریاست کیا ہوگا؟ ۔۔۔ محمدٌ رّسول اللہ‘‘
’’آئے گا، آئے گا ۔۔۔ اسلامی نظام آئے گا‘‘
’’لائیں گے، لائیں گے ۔۔۔ اسلامی نظام لائیں گے‘‘
’’انقلاب، انقلاب ۔۔۔ اسلامی انقلاب‘‘
عزائم، ولولے، اُمنگیں اور فیصلے آنے والے زمانے کی صورت گری کرتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے تاریخ چَھپ رہی ہو۔ ایک نئے انقلاب کی ایک داستان رقم ہو رہی ہو۔ گویا تاریخ کی ایک کتاب ہے جو بہت تیز رفتاری کے ساتھ چلنے والی مشینوں کے چھاپا خانے میں کھٹا کھٹ کھٹا کھٹ طبع ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بُدھ 2؍فروری 1977ء کی صبح تھی اور ایک تمنائے انقلاب کی سحر۔
یہ وہ زمانہ تھا جب جامعہ کراچی سمیت ہماری ہر مادرِ علمی، ہماری تمام دانش گاہوں کے وہ سپوت جو اسلامی نظام کے نفاذ کے بنیادی تقاضوں کی تعلیم سے مالامال تھے، اپنی اپنی جامعات سے اور اپنے اپنے کلیات سے باہر عوام میں نکل آئے تھے۔ اُن کی پیشانیاں روشن، چہرے پاکیزگی سے منور، کردار صاف ستھرے اور مثالی تھے۔ جب اُنہوں نے عوام سے اُن کی زبان میں، اُن کی اصطلاحوں میں اور اُن کے تمدنی و ثقافتی پس منظر میں بات کی تو وہ ساری بات فوراً سمجھ گئے۔ پورے ملک کے عوام باہر نکل آئے۔ مردوزن، پیر وجواں، بچے اور بچیاں، نانیاں اور دادیاں۔
اُسی شب ملیر توسیعی کالونی ڈی ایریا کی ڈیڑھ فرلانگ لمبی سڑک بعد نمازِ عشاء ہونے والی کارنر میٹنگ کے بعد ڈیڑھ ہزار افراد کے قدموں کی چاپ سے دھمک رہی تھی۔ چاروں طرف رواں دواں مجمع کو دیکھ کر پھر یہ محسوس ہونے لگا کہ تاریخ اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ یہ وہ گزران ہے کہ جب صدیوں کا فاصلہ ثانیوں میں طے کرلیا جاتا ہے۔ طالب علم کے خطاب کے دوران میں ہجوم پر سناٹا تھا اور فضا میں سکوت۔ رات کی بسیط خاموشی میں صدائے انقلاب کی پکار پوری آبادی کے اندردور دور تک گونج رہی تھی۔ خطاب کے بعد باتیں کرتے ہوئے جاتے لوگوں کی گُفتگو سے معلوم ہوا کہ وہ دُعا قبول ہوچکی ہے جو اِن الفاظ میں مانگی گئی تھی کہ:
مِرے خدا مجھے وہ تابِ نے نوائی دے
میں چپ رہوں بھی تو نغمہ مرا سنائی دے
یہ وہ زمانہ تھا جب پیشانیاں روشن تھیں۔ چہرے نورِ اخلاص سے منور تھے۔ کردار بے داغ، اعمال صاف ستھرے اور اقوال مثالی تھے۔
***
ابھی کچھ عرصہ قبل کی بات ہے۔ ادارۂ مطبوعاتِ طلبہ کے سابق مہتمم امجد حسین شاہ ملے تو اُن دنوں کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ کہنے لگے کہ اب بہت سے سوالات اُبھرتے ہیں۔
’’کہاں گم ہوئے وقت کی وسعتوں میں؟ چڑھے پانیوں میں اُتر جانے والے!‘‘
’’کیا جانیے کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو؟ جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد!‘‘
’’آخر کیا ہوئے؟ ۔۔۔ وہ عجیب لوگ، وہ قافلے، جو نہ رُک سکے نہ بھٹک سکے، جو چمن سجا کے چلے گئے، جو وطن بنا کے چلے گئے!‘‘
وہ لوگ، جو کہا کرتے تھے:
کچھ لہو اور کہ اِس شمّع کا شعلہ نہ بجھے
حرفِ حق زندہ رہے یارو، ہمارا کیا ہے!