ایک قوم کی حیثیت سے اب ہماری ترجیحات روحانی، اخلاقی اور نظریاتی نہیں رہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو 9 اپریل 2018 کے ایکسپریس ٹربیون کراچی میں شائع ہونے والی خبر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روحانی، اخلاقی اور سیاسی زلزلہ پیدا کرچکی ہوتی۔ روحانی، اخلاقی اور سیاسی ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدت کم از کم آٹھ اعشاریہ پانچ ہوتی۔ اس کا اندازہ ایکسپریس ٹربیون کے صفحہ اوّل پر موجود سرخی سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ سرخی یہ تھی۔
“UN wants cosentual sex decriminalized in pakistan”
اس سرخی کا، با محاورہ ترجمہ یہ ہوگا۔
’’پاکستان میں زنا بالرضا کی اجازت دو‘‘
اقوام متحدہ کی تجویز
زنا بالرضا کو غیر مجرمانہ فعل قرار دینے کی سفارش
مذکورہ بالا سرخی کا لفظی ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا۔
’’پاکستان میں زنا بالرضا کو غیر مجرمانہ فعل قرار دیا جائے۔
اقوام متحدہ کی سفارش
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خبر کی ’’سرخی‘‘ یہ ہے تو اس کا متن کیا ہوگا؟ لیکن اس سلسلے میں ابہام میں مبتلا رہنا ٹھیک نہیں۔ چناں چہ آئیے دیکھتے ہیں کہ اصل خبر کیا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کے مطابق اقوام متحدہ کے تیسرے عالمی جائزے یا Third univerwsal periodic review کے مطابق پاکستان سے ایسے قوانین کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا ہے جو زنا بالرضا یعنی مرد اور عورت کے درمیان باہمی رضا مندی سے قائم کیے گئے جسمانی تعلق کو غیر قانونی تصور کرتے ہیں۔ اس سفارش کا مقصد زنا بالرضا کو قانونی تحفظ مہیا کرنا ہے۔ بدقسمتی سے یہ خبر کا کم اہم حصہ ہے۔ خبر کا زیادہ اہم حصہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اقوام متحدہ کی زنا بالرضا سے متعلق سفارش پر ’’Noted‘‘ لکھ کر اسے واپس بھیجا گیا ہے۔ Noted کا مفہوم یہ ہے کہ حکومت وقت نے اقوام متحدہ کی سفارش سے ’’اصولی طور پر‘‘ اتفاق کرلیا ہے۔ البتہ اس کو قبول یا رد کرنے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ خبر کے مطابق اقوام متحدہ نے مذکورہ بالا دھماکا خیز ’’سفارش‘‘ سن 2008 اور سن 2012 میں بھی پاکستان کو ارسال کی تھی مگر اس وقت (پیپلز پارٹی کی) حکومت نے تجویز مسترد کرتے ہوئے اس پر غور کرنے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم سن 2017 میں نواز شریف کی حکومت کے دوران اس تجویز پر قابل غور یا Noted لکھ کر اقوام متحدہ کو بھجوادیا گیا۔ خبر کے مطابق کینیڈا اور سابق چیک ری پبلک نے بھی یہ تجویز پاکستان کو ارسال کی تھی۔ پاکستان نے ان ممالک کو بھی آگاہ کیا ہے کہ ان کی تجویز نوٹ کرلی گئی ہے۔ خبر کے مطابق اقوام متحدہ نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے کہ جو لوگ زنا بالرضا پر سزا کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں سزا دی جائے۔ انسانی حقوق کے متعلق ایک Activist نے نام نہ بتانے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان زنا بالرضا کی تجویز کو ماضی میں مسترد کرتا رہا ہے مگر اب اس تجویز کو اس کا قبول کرنا حیران کن ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کن قوتوں کے دباؤ کے تحت پاکستان نے اس تجویز کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں۔ Activist نے کہا کہ پاکستانی اہلکار مغرب کو اپنا ’’لبرل چہرہ‘‘ دکھا کر اسے خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک حکومتی ادارہ ہے مگر اس کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ بات صدمے کا باعث ہے کہ حکومت پاکستان نے زنا بالرضا کی تجویز پر ’’غور‘‘ کی بات بھی کیوں کہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان میں زنا بالرضا کو غیر مجرمانہ فعل قرار دینا ممکن نہیں کیوں کہ یہ اسلام اور آئین کے خلاف ہے اور یہ غداری ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں بھارتی اداکارہ سری دیوی کی موت ایک ’’قومی سانحے‘‘ کے طور پر رپورٹ ہورہی تھی۔ جیو کے پانچ خبرناموں میں سری دیوی کی موت پہلی شہہ سرخی یا Banner Head Line کے طور پر رپورٹ ہوئی۔ باقی چینلوں کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ کسی چینل میں سری دیوی کی موت کو پانچ اور کہیں دس منٹ دیے جارہے تھے۔ مگر شریف حکومت کے دور میں پاکستان زنا بالرضا پر غور کے لیے آمادہ ہورہا تھا اور کسی کو اس کی اطلاع نہ تھی۔ یہاں تک کہ اس رضا مندی کے حوالے سے ایکسپریس ٹربیون میں شائع ہونے والی خبر پر بھی ملک میں کوئی ہنگامہ برپا نہ ہوا۔ حالاں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عقاید اور اقدار کے اعتبار سے یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ اسے کئی روز تک اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی شہہ سرخیوں کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ اس پر دو تین سو ٹاک شوز برپا ہونے چاہیے تھے۔ مذہبی اور سیاسی تنظیموں کو اس حوالے سے بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کرنا چاہیے تھا۔ ملک کے چھوٹے بڑے کالم نگاروں کو اس سلسلے میں دو تین ہزار کالم تحریر کرکے اپنی روحانی، مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ زنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکو مگر میاں نواز شریف کے دور حکومت میں زنا بالرضا پر ’’قابل غور‘‘ یا ’’Noted‘‘ لکھا جارہا تھا۔ یہ سناٹا کیوں ہے بھائی؟ کیا ہماری روحانی، اخلاقی اور تہذیبی موت واقع ہوچکی ہے؟ یا ہم کسی ایسے روحانی، اخلاقی اور تہذیبی خلا سے دوچار ہوچکے ہیں جس کا اندازہ بھی دشوار ہے؟۔
مغرب نائن الیون کے بعد سے اب تک کہہ رہا ہے کہ اس کا مسئلہ ’’اسلام‘‘ اور ’’اسلامی تہذیب‘‘ نہیں ’’دہشت گرد‘‘ اور ان کی ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔ مگر مغرب جھوٹ بول رہا ہے۔ اس کا اصل مسئلہ اسلام اور اسلامی تہذیب ہی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر جارج بش نے امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مہم کو crusade یا ’’صلیبی جنگ‘‘ کا نام دیا۔ اس پر مسلم دنیا میں ایک دو آوازیں بلند ہوئیں تو وائٹ ہاؤس سے وضاحت جاری ہوئی کہ دراصل تقریر کرتے ہوئے جارج بش کی ’’زبان‘‘ پھسل گئی تھی۔ مگر جارج بش فی البدیہہ تقریر نہیں کررہے تھے وہ لکھی ہوئی تقریر پڑھ رہے تھے اور لکھی ہوئی تقریر میں زبان کو کبھی اس طرح پھسلتے نہیں دیکھا گیا کہ جو لفظ لکھا ہوا ہی نہ ہو بولنے والا اپنی تقریر میں وہ لفظ استعمال کر بیٹھے۔ ویسے زبان پھسلنے یا Slip of tongue کے بارے میں مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے کہا ہے کہ زبان پھسلنے کا عمل ’’اتفاقی‘‘ نہیں ہوتا بلکہ اس کا بھی ایک نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی پس منظر ہوتا ہے۔ جارج بش کی تقریر کے بعد اٹلی کے وزیراعظم سِلویو برلسکونی میدان میں آئے انہوں نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ مسلم دنیا کا کوئی ترجمان ہوتا تو اٹلی کے وزیراعظم سے پوچھتا کہ حضور آپ تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں پھر آپ تہذیبوں کا موازنہ کیوں کررہے ہیں اور یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ اٹلی کے وزیراعظم کے بعد جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ آگے آئے، انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے۔ اس لیے کہ عیسائیت کے خد انے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے عیسیٰؑ کی قربانی دے دی۔ اس کے برعکس اسلام کا خدا، ایسا خدا ہے جو اپنے پیروکاروں سے جہاد کی صورت میں قربانی یا شہادت طلب کرتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی ترجمان ہوتا تو جارج بش کے اٹارنی جنرل سے پوچھتا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لیے نکلے ہوئے لوگوں کو اسلام اور عیسائیت کے تصور خدا کے موازنے اور عیسائیت کے تصور خدا کو برتر یا Superior ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یورپ میں ناٹو کی افواج کے سابق کمانڈر جنرل کلارک نے بی بی سی ورلڈ کے پروگرام Hard Talk میں حد کردی۔ انہوں نے صاف کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل اسلام کی تعریف متعین کرنے یا اسے Define کرنے کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ طے یہ کرنا ہے کہ آیا اسلام ایک پرامن مذہب ہے یا یہ کوئی ایسا دین ہے جو اسامہ بن لادن کی طرح لوگوں کو تشدد پر اُکساتا ہے۔ ان تمام حقائق سے ثابت ہوگیا کہ مغرب دہشت گردوں اور دہشت گردی کا نہیں اسلام اور اسلامی تہذیب کا دشمن ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زنا بالرضا کو ’’قابل قبول‘‘ بنانے کی تجویز یا سفارش بھی اسلام اور اسلامی تہذیب پر کھلا حملہ ہے۔ یہ حملہ مغرب کی اسلام دشمنی کا تسلسل ہے۔ مگر ہمارا اصل مسئلہ مغرب نہیں۔ مسلم معاشروں میں موجود مغرب کے تہذیبی اور نظریاتی ایجنٹس ہیں۔ یہ ایجنٹ کہیں بادشاہ ہیں، کہیں جرنیل ہیں اور کہیں میاں نواز شریف کی طرح نام نہاد ’’جمہوری‘‘ اور ’’سول حکمران‘‘ ہیں۔ ان حکمرانوں کا نہ کوئی ’’دین‘‘ ہے، نہ کوئی ’’تہذیب‘‘ ہے، نہ کوئی ’’تاریخ‘‘ ہے۔ ان کا دین بھی ان کا اقتدار اور ان کے مفادات ہیں اور ان کی تہذیب و تاریخ بھی ان کے اقتدار اور مفادات کے سوا کچھ نہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب زنا بالرضا کو ’’انسانی حقوق‘‘ کا مسئلہ باور کرا رہا ہے، حالاں کہ اسلام کا تصور انسان بھی مغرب کے تصور انسان کی ضد ہے اور اسلام کا تصور ’’حقوق‘‘ بھی مغرب کے تصور حقوق سے جدا ہے۔ مگر یہ بات میاں نواز شریف اور ان کے کیمپ کو کوئی کیسے سمجھائے۔ بقول شاعر
کریں گے کیا جو یہ مغرب سے ہوگئے آزاد
انہیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
(جاری ہے)