موجودہ ووٹر لسٹوں کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں زیادہ بد ترین ہے۔حافظ نعیم الرحمن

206

کراچی (اسٹا ف رپورٹر)جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہاہے کہ موجودہ ووٹر لسٹوں کی صورتحال ماضی سے زیادہ خراب اور بد ترین ہے ، الیکشن سے قبل ہی من پسند نتائج کے لیے ووٹر لسٹوں اور مردم شماری میں فراڈ کیا گیا ہے ، جماعت اسلامی نے بلاکس کی سطح پر جائزہ لیا جس سے ثابت ہوا ہے کہ اکثر بلاکس میں آبادی اورووٹر کاتناسب 100فیصد سے بھی زیادہ ہے جبکہ سینکڑوں بلاکس میں یہ تناسب 20فیصد سے بھی کم ہیں ، ہم حکومت پاکستان اور الیکشن کمیشن سے سوال کرتے ہیں کہ ان اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں کیا مردم شماری صحیح ہوئی ہے ؟ کیا الیکشن کمیشن کے لوگوں نے ووٹر زکی تصدیق گھر گھر جا کر ٹھیک طریقے سے کی ہے؟ کیا موجودہ تعداد اورتناسب کسی قومی یابین الاقوامی معیار پر اترتا ہے؟ووٹر لسٹوں میں فراڈ کا عمل حکومت پاکستان اور الیکشن کمیشن کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے ، ہم چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ووٹر لسٹوں کی عدالتی سطح پر تحقیقات کی جائے ، 2012میں بھی جماعت اسلامی نے جعلی ووٹر لسٹوں کے حوالے سے احتجاج کیا تھا اور سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی تھی ، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ووٹرلسٹوں کی گھر گھر تصدیق نہ کی گئی ،اگر ووٹر لسٹ ابھی ٹھیک نا ہو سکی، تو الیکشن 2018ء4 بھی 2013ء4 کے الیکشن کی طرح بوگس ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جماعت اسلامی الیکشن سیل کے کنوینر راجا عارف سلطان نے ووٹر لسٹوں کی بلاک کی سطح پر اعداد و شمار پیش کیا۔ اس موقع پر نائب امراء4 کراچی برجیس احمد ، ڈاکٹر اسامہ رضی ، سکریٹری کراچی عبد الوہاب ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے۔حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ نئی ووٹر لسٹوں اور مردم شماری میں دانستہ طور پر انتہائی فاش غلطیاں اور بد عنوانیاں کی گئی ہیں۔ یہ ایسے حقائق ہیں کہ جن کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی طرح بھی رد نہیں کر سکتا۔ نئی ووٹر لسٹوں میں جو اعدادو شمار سامنے آئے ہیں وہ عقل و فہم سے با لا تر ہیں کیونکہ آبادی اور ووٹرز کا تناسب عموماً50فیصد تک ہو تا ہے لیکن کراچی کی موجودہ ووٹر لسٹوں میں یہ تناسب انتہائی تضادات پر مشتمل ہے۔ہزاروں بلاکس میں یہ تناسب 100فیصد سے بھی زیادہ ہے۔سینکڑوں بلاکس میں 100فیصد ہے جبکہ سینکڑوں بلاکس ایسے ہیں جن میں یہ تناسب 20فیصد سے بھی کم ہے۔ضلع جنوبی میں یہ تناسب 222 59.55، ضلع غر بی میں 222 44.55 ، ضلع وسطی میں222 61.66، ضلع شر قی میں 222 48.65، ضلع ملیر میں 222 36.97،ضلع کورنگی میں 222 52.49 ہے۔یہ سب آخر کس طرح ہو ا اور اس کے پیچھے کیا عزائم کار فر ما ہیں؟۔انہوں نے کہا کہ اب جب کہ پو رے ملک میں چھٹی مردم وخانہ شماری اور اس کے مطابق بنائے گئے شماریاتی بلاکس کے لحاظ سے نئی ووٹر لسٹ بنائی گئی ہیں جو ابھی تک غیر حتمی ہے، جب یہDisplayسینٹر زپر آئیں تو عجیب اعداد وشمار سامنے آئے کہ اگر آبادی 376ہے تو ووٹر 900ہیں 440250201اس طرح جب ہم نے مزید فہرستوں کا تجزیہ کیا جو کہ ابھی جاری ہے، تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہزاروں بلاکس ایسے ہیں جو آبادی سے زیادہ ووٹ رکھتے ہیں۔مثلاً کراچی کا ضلع ایسٹ (شرقی)اور سب ڈویڑن فیروزآباد جس کا شماریاتی کوڈ (440)ہے اس کے چارج نمبر 25کا جب تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس چارج میں 9سرکل ہیں اور51شماریاتی بلاکس ہیں اس چارج میں بہت سے بلاکس میں ووٹرکی تعدادآبادی سے بھی کئی گناہ زیادہ ہے مثلاًبلاک نمبر 440250104میں آبادی 407ہے اور ووٹر ز 908ہیں، 440250201میں آبادی 376ہے اورووٹرز 900ہیں اور440250903میں آبادی 271ہے اورووٹرز 1138ہیں۔انہوں نے کہا کہ شفاف انتخابی فہرستیں مرتب کروانا الیکشن کمیشن آف پاکستا ن کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے۔منصفانہ ،غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے لئے ووٹرلسٹ کا درست اور شفاف ہونا بنیادی شرط ہے۔اگر ووٹر لسٹ میں انجینئرنگ کی گئی ہوتوانتخابات کبھی شفاف نہیں ہوسکتے شفاف اور درست انتخابی فہرست مرتب کروانا الیکشن کمیشن پاکستان کی ہی ذمہ داری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم پچھلے 7سالوں سے الیکشن کمیشن سے باربار خطوط اور ثبوت کے ذریعے درخواستیں کر رہے ہیں کہ کراچی کی ووٹر لسٹیں درست کروائی جائیں۔ مجبوراًہم سپریم کورٹ گئے (پٹیشن نمبر CP۔111/2012)سپریم کورٹ نے ہماری بات کو تسلیم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ کراچی کی ووٹر لسٹ کو دوبارہ گھر گھر جا کر تصدیق کا عمل کیا جائے اور تصدیق کنند ہ کے ساتھ فوج یا FCکا جوان ہو۔اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے فوٹوسیشن کروا کر خانہ پوری کی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہو ا میں اڑا دیا اورووٹر لسٹ درست نہ ہو سکی۔انہوں نے کہا کہ ووٹر لسٹ کی Revisionالیکشن کمیشن پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور ہم 2012ء4 سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ ووٹر لسٹ کراچی میں صحیح نہیں بن رہی ہیں، سپریم کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کیا، لیکن معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔ہمارا مطالبہ ہے بلاک وائز آبادی کو سامنے رکھا جائے اور جہاں ووٹرز کی تعداد معیار کے مطابق نہیں ان بلاکس میں دوبارہ تصدیق کا عمل کیا جائے، کیونکہ ایک لسانی تنظیم نے بہت سارے ووٹوں کا انداراج بوگس پتوں پر درج کروارکھا ہے۔