امتحانی پرچے کیسے آؤٹ ہوجاتے ہیں؟

222

صوبہ سندھ میں انٹر میڈیٹ کے امتحانات ہورہے ہیں لیکن ان میں بھی نقل کی وہی صورتحال ہے جو میٹرک امتحانات میں دیکھی گئی بلکہ جو ہر سال سامنے آتی ہے۔ اب تو موبائل، واٹس ایپ وغیرہ کی مدد سے نقل اور بھی آسان ہوگئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا داخلہ امتحانی مراکز میں بند ہوگیا ہے تاکہ گھر کی بات گھر ہی میں رہے۔ اس حوالے سے ایک تماشا یہ ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہمیں تو ایسی پابندی کی کوئی اطلاع ہی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انٹر بورڈ کے ذمے داران بھی کہہ اٹھیں کہ انہیں تو معلوم ہی نہیں کہ نقل ہورہی ہے۔ بات نقل سے آگے بڑھ گئی ہے اور مسلسل تیسرے دن پرچے آؤٹ ہوئے ہیں۔ امیدواروں میں پرچے تقسیم ہونے سے پہلے ہی باہر آجاتے ہیں۔ واٹس ایپ پر گردش کررہے ہوتے ہیں اور فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں پر بک رہے ہوتے ہیں۔ ایسے امتحانات کا فائدہ ہی کیا ہے۔ امتحان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ طالب علم کی سال بھر کی محنت کا جائزہ لیا جائے لیکن اب طالبان علم اپنی اہلیت اور صلاحیت کا مظاہرہ کسی اور طریقے سے کرتے ہیں۔ ویسے تو کسی طالب علم کو جانچنے کے لیے مروجہ طریقہ امتحان ہی ناقص ہے کہ محض چند سوالوں کا جواب دینے والا کامیاب ہوجاتا ہے۔ عموماً تو یہ جواب گائیڈ بک یا نوٹس کے ذریعے رٹ لیے جاتے ہیں اور کامیابی مل جاتی ہے۔ لیکن اگر کسی کو چند سوالوں کا جواب نہ آئے مگر پورے کورس پر عبور ہو تو وہ ناکام ہوجاتا ہے۔ ماہرین تعلیم، اگر کہیں ہیں تو، طریقہ امتحان کی اصلاح کی کوشش کریں۔ بڑی کلاسوں میں تو سمسٹر سسٹم رائج کردیاگیا ایسا ہی کچھ اسکولوں میں بھی کیا جائے۔ ہر ماہ ٹیسٹ لیا جائے اور اس کی بنیاد پر نمبر دیے جائیں۔ گزشتہ جمعرات کو انٹر کا ریاضی کا پرچہ شروع ہوتے ہی صرف 10 منٹ میں حل کرکے واٹس ایپ کے ذریعے پھیلادیاگیا۔ یہ جدید سہولتوں کا آزادانہ استعمال ہے۔ یہ پرچا تو 10 منٹ بعد حل کرکے نشر کیا گیا لیکن اس سے پہلے پرچہ شروع ہونے سے پہلے ہی امتحانی مراکز کے باہر پہنچ گیا تھا۔ پرچے آؤٹ ہونے کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالی جارہی ہے جس سے لگتا ہے کہ سب ہی ذمے دار ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، تشویشناک بات یہ ہے کہ نقل کرکے کامیاب ہونے والوں میں کوئی ڈاکٹر، کوئی انجینئر اور کوئی بڑا افسر بن سکتا ہے جس کے لیے صرف ڈگری درکار ہوتی ہے اور باقی اقربا پروری، رشوت، تعلقات وغیرہ۔ لیکن جن کی بنیاد ہی کمزور ہو وہ کچھ بھی بن جائیں، ملک کی بنیادیں کمزور کریں گے۔