اصل اوپر والے کا آرڈر مان لیں

312

آج کل اوپر سے آرڈر کی بڑی دھوم ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کا بیان یا گفتگو کہ اوپر سے جو بھی ہدایت آئے گی وہی کیا جائے گا۔ کے اس فتوے کے بعد سے کئی زبانیں اوپر کے آرڈر کے حکم کے بارے میں کھل گئی ہیں جس کو اس بہانے کسی اور پر غصہ نکالنا تھا وہ بھی نکال رہا ہے۔ کل تک کسی سے بات تک نہ کرنے کے روادار آج کہہ رہے ہیں ارے اس کی بھی سنو۔۔۔ لیکن یہ پاکستان ہے یہاں اوپر کی سب سنتے ہیں۔ جب آئین میں 17 ویں ترمیم ہونے جارہی تھی جنرل پرویز گھیرے میں تھے، وردی کا معاملہ اٹک گیا تھا، بیشتر نکات پر اتفاق رائے ہوگیا تھا کہ اچانک پیپلز پارٹی نے خود کو مذاکرات سے الگ کرلیا۔ اب ایم ایم اے اور ق لیگ رہ گئے اگر مذاکرات ختم کردیتے تو جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا الزام لگتا۔ اگر جنرل پرویز کی وردی اور ان کے اقدامات کو تحفظ نہ دینے پر اصرار کرتے تو معاہدہ نہیں ہوتا تعطل کا الزام لگتا۔ لہٰذا یہ 17 ویں ترمیم مجلس عمل کے گلے میں بندھ گئی لیکن پیپلز پارٹی کو اوپر سے کس نے کہا تھا کہ مذاکرات سے الگ ہوجاؤ۔ وہ جمہوریت کی خاطر مذاکرات سے الگ ہوئے تھے، یہ اوپر سے آنے والا پہلا آرڈر نہیں تھا۔ جس وقت (ق) لیگ کو 10 ارکان کی ضرورت تھی تو پیپلز پارٹی کے فیصل صالح حیات سمیت 10 ارکان (ق) لیگ میں چلے گئے۔ ظاہر ہے اوپر کا آرڈر تھا۔ آج تک ان 10 ارکان کے پارٹی چھوڑنے پر کسی نوٹس کی اطلاع ریکارڈ پر نہیں ہے۔ یہ بھی جمہوریت کی خاطر قدم تھا۔ کئی لوگ تو اوپر ہی چلے گئے۔ یہ بھی اوپر ہی کا آرڈر تھا جس سے روگردانی کسی کے بس کی بات نہیں۔
اوپر کا آرڈر کہاں کہاں نہیں چلتا۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ اسمبلیوں میں آئی لیکن عین اس روز جب کوٹہ سسٹم کی توسیع کا معاملہ زیر بحث آتا اوپر کے آرڈر پر واک آؤٹ، بائیکاٹ یا رائے شماری میں احتجاجاً حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا جاتا۔ یہ سب کچھ اوپر کے آرڈر پر ہوتا تھا، مہاجروں کے مفاد کے نام پر۔ یہ تو بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کا مسئلہ ہے یہاں تو پولیس عام سپاہی بھی یہی کہہ کر غریبوں کی پھینٹی لگاتا ہے کہ اوپر کا آرڈر ہے۔ کسی کے گھر پرچھاپا مارا جائے اور کوئی وارنٹ یا عدالتی حکم مانگے تو دروازہ توڑ کر اندر گھس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اوپر کا آرڈر ہے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی مارشل لا لگا تو اوپر ہی سے آرڈر آتا ہے۔ مہنگائی اوپر سے، بجلی کی لوڈشیڈنگ اوپر سے، پانی کی قلت اوپر سے، تقرر تبادلے اوپر سے۔۔۔ کہا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف اور خواجہ آصف کے خلاف فیصلہ بھی اوپر سے آیا تھا۔ کہاں سے یہ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن میاں نواز شریف خود کہتے ہیں کہ فیصلے کیے نہیں کرائے جارہے ہیں۔ تو کوئی تو اوپر ہوگا جو فیصلے کرارہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی بالآخر کسی اوپر کی طاقت کا حوالہ دے ہی دیا۔۔۔ کہ بولتا ہوں تو بولنے نہیں دیا جاتا۔ مارشل لا لگا تو گھر چلے جائیں گے۔ ظاہری بات ہے اور کہاں جائیں گے۔ لیکن ان کو بھی یقین ہے کہ کوئی اوپر ہے۔۔۔ یہ سارے لوگ اوپر کے آرڈر پر ہر کام کرجاتے ہیں۔ لیکن اوپر سے ایک آرڈر آیا ہوا ہے ہم مسلمانوں کے لیے 14 سو برس سے زیادہ عرصہ گزرا اس آرڈر پر اختلاف ہے، بحثیں ہیں، فکری زاویے ہیں، اگر مگر ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے بلکہ ایسا ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے وہ مطلب ہے۔ قرآن ایسا نہیں چاہتا تھا بلکہ جیسا ہم چاہتے ہیں ایسا چاہتا تھا۔ یہ رویہ ہے ہمارا اوپر سے آنے والے اصل آرڈر کے ساتھ۔ یہ جو عارضی اوپر والے عارضی آرڈر دے دیتے ہیں ان کو ہم سب بڑی عاجزی سے فوری طور پر مان لیتے ہیں۔ مارشل لا لگ جائے تو پوری قوم مانتی ہے، حکومت گرادی جائے پوری قوم مانتی ہے، منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے تو پوری قوم مانتی ہے، نہیں مانتی تو اس دنیا کو اور ہم سب کو بنانے والے کے آرڈر کو نہیں مانتی۔ اس کے لیے بحثیں ہوتی ہیں، کبھی کسی نے سنا کہ مارشل لا احکامات پر میڈیا میں یا دانشوروں میں بحثیں ہورہی ہوں۔ جنرل صاحب کا مطلب یہ نہیں تھا بلکہ ہماری مرضی کا مطلب تھا۔ یا چیف جسٹس کے حکم پر کوئی اپنی مرضی کا مطلب نکال لے۔ لیکن قرآن، حدیث، اسلامی احکامات ان پر ہر کوئی اپنا مطلب نکالنے کے لیے تیار ہے اور اس کی سب کو اجازت بھی ہے۔ یہ جو عارضی اوپر والے ہیں یہ سب کچھ دنوں میں نیچے چلے جائیں گے لیکن جب ہم سب اصل اوپر والے کے سامنے پیش ہوں گے تو ہمیں اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہوگا۔ وہاں یہ دلیل تو چلے گی نہیں کہ طاقتور کا حکم تھا۔ وہاں تو جواب یہی ملے گا کہ ہمارے سامنے بحث نہ کرو، اب دونوں ہی جہنم میں جاؤ۔ ہمیں اپنے اس انجام سے بچنا ہے تو اصل اوپر والے کے احکامات پر عمل کریں اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جس روز سے اصل اوپر والے کے احکامات ماننا شروع کریں گے عارضی اوپر والے چھوٹے لگیں گے۔