صاحبو! خلوص مٹتا جارہا ہے۔ کوئی جینے میں دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہے اور نہ مرنے میں۔ سب ایک دوسرے کو خلوص کی یقین دہانی کرانے میں مصروف ہیں۔ ہم محبت نہیں یقین دہانی کراتے ہیں۔ پہلے ہمسایے میں بھی کوئی مر جاتا تو لوگ غم سے پچھاڑیں کھاتے تھے اب باپ بھی مرجائے تو ’’او یار! لاسٹ ویک میرے فادر ایکسپائر ہوگئے‘‘۔ تعزیت بھی رسمی ہوگئی ہے۔ میت میں اگر جانا بھی پڑے تو کار میں بیٹھے بیٹھے اظہار غم کردیتے ہیں ’’جیسے ہی خبر ملی انکل ایکسپائر کرگئے میں آفس سے سیدھا بھاگا۔ کئی ضروری کام پڑے تھے سوچا آکر کروں گا۔ گاڑی میں سی این جی بھروانی تھی وہ بھی واپسی میں ڈلواؤں گا۔‘‘ غالب نے کہا تھا
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
اب نہ محبت رگوں میں دوڑتی پھرتی ہے اور نہ آنکھوں سے ٹپکتی ہے بس یقین دہانیوں کی حد تک رہ گئی ہے۔ آج کل پاکستان میں ہر طرح کی یقین دہانی چیف جسٹس صاحب کروا رہے ہیں۔ جتنا وہ بولتے ہیں ہم حیران ہیں کام کب کرتے ہوں گے۔ ان کے بیان پڑھیں تو لگتا ہے پاکستان کا اللہ حافظ ہے یا پھر چیف جسٹس صاحب۔ مسائل کی بہتات اور وسائل کے فقدان میں ان کی یقین دہانیاں غنیمت ہیں۔ نہ جانے وہ مسلم لیگ ن کے معاملے میں اتنے تردد میں کیوں ہیں۔ اپنی کار کے پیچھے لکھوا دیں ’’جلنے والے کا منہ کالا‘‘ پوری ن لیگ کا منہ کالا ہو جائے گا۔ آج کل تو احتساب عدالت سے امیدیں بندھی ہیں۔ وہاں سے سزا ہوجائے تو امید ہے نواز شریف کا دور بھی اختتام پزیر ہوجائے۔ نکھرتا ہی جارہا ہے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد بس پھر ن لیگ کو توڑنا رہ جائے گا۔ بڑی شرمندگی کی بات ہے اتنی کوششوں کے بعد بھی ن لیگ ٹوٹنے میں نہیں آرہی۔ آٹھ دس اراکین کے داغ مفارقت دے جانے سے بھی پارٹی ثابت وسالم ہے۔ سنا ہے نگراں حکومت آنے کے بعد 80ارکان کو تیار کیا گیا پارٹی چھوڑنے کے لیے۔ نواز شریف بڑے ضدی واقع ہوئے ہیں۔ شکست مان کر نہیں دے رہے۔ اس کی وجہ؟ ایک وکیل اور گواہ میں جرح ہورہی تھی۔
وکیل: آپ کا بیان ہے کہ دیوار دس فٹ بلند تھی۔ آپ زمین پر کھڑے تھے۔ آپ کے پاس کوئی سیڑھی بھی نہیں تھی۔
گواہ: جی ہاں میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔
وکیل: (اس انداز سے جیسے اس نے مقدمہ جیت لیا ہو) پھر براہ کرم یہ ارشاد فرمائیے۔ آپ دیوار پر کیسے چڑھے جب کہ آپ کا قد بھی بمشکل پانچ فٹ ہے، آپ کے پاس کوئی سیڑھی بھی نہیں تھی!
گواہ: جناب اس دیوار میں ایک روزن بھی تھا۔ اس میں پاؤں پھنسا کر چڑھ گیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ سیاست کی دیوار میں روزن ہی روزن ہوتے ہیں جن کی سہار گرنے نہیں دیتی۔ نواز شریف کے معاملے میں بھی یہی مسئلہ ہے۔ ناز ونعم میں پلے بڑھے ہیں لیکن جیل جانے کو تیار ہیں۔ تحریک چلانے پر کمر بستہ ہیں۔ بار بار کہہ رہے ہیں میری کال کا انتظار کرو۔ بہتر ہے مقدمات کے جھنجٹ میں پڑے بغیر انہیں کسی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جائے۔ ’’لے پتر ہن کال دا شوق پورا کر۔‘‘ ویسے بہتر ہے سیاست دانوں کے لیے ایک الگ جیل خانہ بنادیا جائے جس کا مسالحہ پرانے جیل خانے کے ملبے سے حاصل کیا جائے۔ جب تک نئی جیل تیار نہ ہوجائے سیاست دانوں کو پرانی جیل میں رکھا جائے۔
بات یقین دہانیوں کی ہورہی تھی۔ اور تو کسی کی بات کا ہمیں یقین نہیں لیکن جب چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں کہ انتخاب وقت پھر ہوں گے تب ہمیں بھی یقین آجاتا ہے۔ آج کل ملک وہی چلارہے ہیں۔ وہ جس پر شور انداز میں سیاست دانوں کی طرح تقریر کرتے ہیں ہم انہیں مائی لارڈ کہنا بھول جاتے ہیں۔ ان پر ایک سیاست دان کا گمان گزرتا ہے۔ تین فلمی اداکاروں نے شہنشاہ ایران محمد رضا پہلوی کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ ایک نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا ’’وہ بہت دلکش ہیں‘‘ دوسری نے کہا ’’بہت اچھے رقاص ہیں‘‘ تیسری بولی ’’باتیں بہت کرتے ہیں۔ مجھے تو بے تکلفی میں یاد ہی نہیں رہا کہ وہ بادشاہ ہیں۔ میں تو انہیں یور مجسٹی کہنا بھی بھول جاتی تھی۔‘‘
انتخابات وقت پر ہوں یا تاخیر سے مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے کے چانس نہیں۔ بات سادا سی ہے۔ سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔ آج کل ہماری سیاست میں دوچیزیں اہم ہیں۔ عدالت کے ہاتھوں اہلی اور نا اہلی۔ عدلیہ کے ہاتھوں نکالے جانے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف پورے ملک میں پوچھتے پھر رہے ہیں مجھے کیوں نکالا۔ ملک کے طول وعرض میں ان کے کامیاب جلسے بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔ ان کی جماعت نے تقریباً تمام ضمنی الیکشن بھی جیتے ہیں۔ پنجاب میں اس کی پوزیشن بھی مستحکم سے مستحکم تر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسی بساط بچھائی جائے گی کہ معلق پارلیمنٹ بنے۔ کوئی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ صوبہ بلوچستان میں انجینئرنگ کے جو کمالات دکھائے گئے ہیں اس کے بعد سب ہی کچھ ممکن ہے۔ اسمبلیوں کے لیے حاضرین آزاد ارکان، لسانی، مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر بننے والے اتحادوں سے فراہم کر دیے جائیں گے۔ لیجیے جمہوریت کا تقاضا پورا ہوگیا۔ الیکشن ہوگئے، اسمبلیاں وجود میں آگئیں۔ حکومت بھی جیسے تیسے بن ہی جائے گی۔ میاں صاحب نہ جانے کیوں مقتدر اداروں (عدلیہ پلس ۔۔۔) کے اس انتظام بست وکشاد کو پری پول دھاندلی قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں اگر کوئی خوش ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ ’’ادارہ فراہمی حکومت‘‘ نے نہ جانے انہیں کیا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ایوان وزیراعظم میں الیکشن کے فوری بعد خود کو اس سیج پر بیٹھا دیکھ رہے ہیں جو وزیر اعظم کے لیے سجائی جاتی ہے۔ ملک میں ماحول کچھ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ محلاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتا ہے۔
اس سارے کھیل تماشے میں عوام کا کیا کردار ہے۔ عوام کا کردار چند منٹوں کی اس آزادی تک محدود ہے جس میں وہ ووٹ کی پرچی پر ٹھپے لگائیں گے۔ اس سے ملحقہ ایک غیر متعلقہ فضول سا سوال اور ہے۔ عوام کو اس سارے تماشے سے کیا ملے گا۔ اس پر ایک لطیفہ سن لیجیے۔ سینما میں ایک فلم دکھائی جارہی تھی۔ فلم کے خاتمے سے پہلے ہیرو مارا جاتا ہے۔ ہیروئن اس کی لاش پر ماتم کرتی نظر آتی ہے۔ عموماً خاتمے سے کچھ دیر پہلے سینما کے دروازے کھل جاتے ہیں اور خوانچے والے آوازیں لگانا شروع کردیتے ہیں۔ اس موقع پر اتفاق یہ ہوا کہ ادھر ہیروئن نے کہا ’’اے خدا! اے خدا! اب میرے لیے دنیا میں کیا رہ گیا ہے۔‘‘ ادھر سے آواز آئی ’’ٹھنڈی میٹھی گنڈیریاں‘‘۔ المیہ یہ ہے کہ عوام کے حصے میں جو جمہوری گنڈیریاں آتی ہیں وہ نہ ٹھنڈی ہوتی ہیں اور نہ میٹھی۔ کھاؤ تو دانت ہل جائیں منہ گھس جائے۔