اگرچہ زنا بالرضا اور نواز شریف کی حکومت کے باہمی تعلق سے متعلق خبر سب سے پہلے ایکسپریس ٹربیون نے شائع کی مگر اس خبر پر ہماری توجہ دی نیوز انٹرنیشنل کے ایڈیٹر اور معروف صحافی انصار عباسی کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم کی وجہ سے مبذول ہوئی۔ ایکسپریس ٹربیون میں زیر بحث خبر 9 اپریل 2018ء کو شائع ہوئی جب کہ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کا کالم 16 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔ انصار عباسی میاں نواز شریف کے ’’دشمن صحافیوں‘‘ میں شامل نہیں بلکہ وہ میاں صاحب اور ان کی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں جو ان کی تحریروں سے عیاں ہوتا رہا ہے۔ مگر انصار عباسی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام اور اس کی اقدار سے جذباتی تعلق رکھتے ہیں۔ چناں چہ انہیں معاشرے میں اسلامی اقدار پامال ہوتی نظر آتی ہیں تو وہ اس پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زنا بالرضا اور حکومت کے حوالے سے لب کشائی کی۔ چوں کہ انصار عباسی میاں صاحب کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اس لیے ہم ان کا پورا کالم آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ انصار عباسی نے ’’معاملہ میرا جسم میری مرضی‘‘ سے آگے بڑھ گیا‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا۔
’’کچھ عرصہ قبل مغربی ثقافت او رسوچ کو یہاں پھیلانے کے لیے کام کرنے والی کچھ این جی اوز نے پاکستان کے چند اہم شہروں میں خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی کے نام پر ایک مظاہرے کا انعقاد کیا۔ اس مظاہرے کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ عورت مکمل آزاد ہے اور وہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی مرد چاہے وہ باپ ہو، بھائی یا شوہر کسی کے زیر اثر نہیں۔ اس مظاہرے کا اہم نعرہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تھا۔ اس نعرے نے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے اپنے غم و غصہ کے ساتھ ساتھ تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کون سی تعلیم دی جا رہی ہے اور یہ کیسے حقوق کی بات کی جا رہی ہے جن کا نشانہ شرم و حیا کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی و معاشرتی اقدار ہیں تاکہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی بے راہ روی کو پھیلا کر اس کو فری سیکس سوسائٹی بنایا جائے۔ اس مظاہرے کے انعقاد کے ایک دو ہفتوں کے بعد پاکستان کے ایک انگریزی اخبار نے ایک خبر شائع کی جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ کس طرح پاکستان میں بے شرمی اور بے غیرتی کو بڑھانے کے لیے انتہائی منظم انداز میں کام ہو رہا ہے اور ہم بے فکرہو کر بیٹھے ہیں۔ خبر بہت خطرناک تھی لیکن اس کو بھی عمومی طور پر نظر انداز کیا گیا۔ خبر کے مطابق رضامندی سے زنا کو جائز قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کی سفارشات کو پاکستان نے رد کرنے کے بجائے ’’Noted‘‘ لکھا جس کا (خبر کے مطابق) مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ ان سفارشات میں یہ لکھا ہے کہ ایسے قوانین جو بغیر شادی کیے نا محرم عورت اور مرد کے جسمانی تعلق یعنی زنا پر پابندی لگاتے ہیں اور انہیں غیر قانونی تصور کرتے ہیں، انہیں ختم کر دیا جائے تاکہ زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔ خبر میں وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالہ سے لکھا گیا کہ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی پاکستان نے ان سفارشات جن کا حوالہ (The UPR Recommendations- 2017) ہے، کے بارے میں اقوام متحدہ میں اپنا ردعمل ’’noted‘‘ کر کے دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان سفارشات پر غور کرے گا۔ خبر کے مطابق ماضی میں بھی پہلے 2008ء اور پھر 2012ء میں اسی تنظیم نے کچھ دوسری متنازع سفارشات کے ساتھ ساتھ رضا مندی سے زنا کے عمل کو جائز قرار دینے کی تجاویز دیں تھیں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے ان سفارشات کو صاف صاف مسترد کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم ان تجاویز پر غور بھی نہیں کریں گے۔ لیکن اس بار ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ پاکستان نے ایسے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل کو رد کرنے کے بجائے اس پر غور کرنے کا وعدہ کر لیا؟؟ اس بارے میں دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد بھی حیران ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ عمل ممکنہ طور پر پاکستان کو بدنام کرنے کی بھی سازش ہو سکتی ہے۔ اس خبر کی سنگینی کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی ایکشن کہیں سے بھی نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی انکوائری کا حکم سامنے آیا ہے۔ چلیں ٹی وی چینلوں سے تو کوئی کیا توقع رکھے کہ اس معاملے کو اٹھائیں تاکہ ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور یہ بھی پتا لگایاجائے کہ آخر اس عمل میں کون کون شریک ہے اور ان کا مقصد کیا تھا، لیکن حیرانگی اس امر پر ہے کہ ایک انگریزی اخبار میں اس خبر کے شائع ہونے کے باوجود حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ جس روز یہ خبر شائع ہوئی اسی روز میں نے اْسے سوشل میڈیا میں ٹیوٹر کے ذریعے بھی شیئر کیا اور خصوصی طور پر وزیر خارجہ خواجہ آصف، مریم نواز اوراحسن اقبال کی توجہ کے لیے ان کے ٹیوٹر ہینڈل کو بھی لنک کیا لیکن کسی نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔ اس معاملے کو اس کالم کے ذریعے اُٹھانے کا مقصد ریاستی ذمے داروں کی توجہ حاصل کرنا ہے تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جا سکے اور یہ بھی پتا لگایا جا سکے کہ کون کون سی این جی اوز اس قسم کے ایجنڈے پر یہاں کام کر رہے ہیں اور ان کے خلاف حکومت کارروائی کرنے سے کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ‘‘
(کالم ختم ہوا)
انصار عباسی کے کالم کے مندرجات سے ظاہر ہے کہ وہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ مغرب اپنے معاشروں کی طرح پاکستانی معاشرے کو بھی جنسی اعتبار سے آزاد معاشرہ یا Free Sex Society بنانے کی سازش کررہا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ملک میں بعض این جی اوز کی طرف سے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کے تحت ہونے والے مظاہروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ مظاہرے اس اعتبار سے ’’جرأت مندانہ‘‘ تھے کہ آج سے کچھ برس پہلے تک پاکستانی معاشرے میں ایسے مظاہروں کا تصور بھی محال تھا۔ لیکن ریاست اور مذہبی طبقات کے مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی شعور کے زوال نے ’’گیدڑوں‘‘ کو بھی ’’شیر‘‘ بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ حالات یہی رہے تو ’’شیر‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے ’’ببر شیر‘‘ میں ڈھل جائے گا۔ انصار عباسی کو بھی اس بات کا شعور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زنابالرضا کو ’’قابل غور‘‘ قرار دینے کو ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ سے آگے کی منزل قرار دیا ہے۔
انصار عباسی نے اپنے کالم میں اس امر کی نشاندہی ضروری سمجھی کہ زنا بالرضا کو قابل قبول بنانے کی تجویز 2008 اور 2012 میں حکومت پاکستان کو بھیجی گئی تھی۔ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی خود کو سیکولر بھی کہتی ہے اور لبرل بھی مگر اس کے باوجود اس نے زنا بالرضا پر ’’غور‘‘ کا ’’بوجھ‘‘ اُٹھانے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کو اسلام اور اس کی اقدار کی بڑی فکر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی عوامی ردِعمل سے گھبراتی ہے۔ اس کی ایک مثال کچھ عرصے قبل سندھ حکومت کے حوالے سے سامنے آئی۔ سندھ میں ہندو لڑکیاں تواتر کے ساتھ اسلام قبول کررہی تھیں چناں چہ این جی اوز نے شور مچانا شروع کردیا کہ ہندو لڑکیوں کو جبراً مشرف بہ اسلام کیا جارہا ہے۔ اپنی افتاد طبع اور شور سے شہ پا کر سندھ حکومت نے تبدیلی مذہب کی راہ مسدود کرنے کے لیے قانون سازی کا اعلان کیا۔ یہ ایک افسوس ناک اعلان تھا اور اس کی مزاحمت ضروری تھی۔ ہمیں یاد ہے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس سلسلے میں آصف زرداری کو فون کرکے قوم کے جذبات سے انہیں آگاہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ سندھ حکومت اپنے ارادے سے باز آگئی مگر میاں نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ خدا سے ڈرتے ہیں نہ عوام سے۔ چناں چہ انہوں نے پوری جرأت اور بے خوفی کے ساتھ ختم نبوت کے تصور پر حملہ کیا اور اب ان کے دور حکومت میں زنا بالرضا کو ’’قابلِ غور‘‘ قرار دے کر سینے سے لگایا گیا ہے۔ انصار عباسی نے اپنے کالم میں صاف لکھا ہے کہ انہوں نے مریم نواز، وزیر خارجہ خواجہ آصف میاں نواز شریف کے ’’ارسطو‘‘ احسن اقبال سے رابطے کی کوشش کی۔ انہیں پیغامات بھیجے۔ انہیں بتایا کہ آپ کی حکومت میں زنا بالرضا کو قابل غور قرار دیا گیا ہے آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ کس نے یہ جرأت کی مگر انصار عباسی کے بقول انہیں نہ میاں نواز شریف کی دختر نیک اختر مریم نواز نے اس سلسلے میں اپنے ردعمل سے آگاہ کیا، نہ انہیں میاں نواز شریف کے نورتنوں میں شامل خواجہ آصف اور احسن اقبال نے منہ لگانے کی زحمت کی۔ حالاں کہ مسئلہ قرآن و حدیث کے حکم پر حملے کا تھا اور رابطہ کرنے والا میاں صاحب اور ان کے کیمپ کا ’’دشمن‘‘ نہیں بلکہ ان کے لیے ’’نیک جذبات‘‘ اور ’’نرم رویہ‘‘ رکھنے والا صحافی تھا۔ کیا ان حقائق سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ زنا بالرضا کو قابل غور قرار دینے کی پشت پر میاں صاحب اور ان کے کیمپ کی خاموش تائید موجود تھی؟ ایسا نہ ہوتا تو میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز، خواجہ آصف اور احسن اقبال انصار عباسی کے پیغامات کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور دیتے۔ انصار عباسی کے کالم سے یہ امر بھی عیاں ہے کہ میاں صاحب، ان کے خاندان اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کو اس بات کی رتی برابر بھی فکر نہیں کہ انہیں کسی ’’پروپیگنڈے‘‘ کی وجہ سے نہیں ان کے ’’ٹھوس اقدامات‘‘ کی وجہ سے ’’مذہب دشمن‘‘ سمجھا جارہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے تکبر کا اندازہ بھی دشوار ہے۔ تکبر اللہ کی چادر ہے، اسے جو کھینچتا ہے مارا جاتا ہے، تکبر فرد کیا، قوموں اور تہذیبوں تک کو کھا گیا ہے، ایسا تکبر جس کے حوالے سے شاعر نے کہا ہے
یہ وقت کس کی رعونت یہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
(جاری ہے)