ذوالفقار علی بھٹو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے علمبردار تھے۔ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح اسلام اور سوشلزم دونوں کے ساتھ ظلم تھی۔ اس لیے کہ اسلام حق ہے اور اسے باطل کے ساتھ منسلک کرنا شرمناک بات ہے۔ سوشلزم ایک مذہب بیزار نظریہ تھا اور اس کے حقیقی علمبرداروں نے ہمیشہ مذہب سے نفرت کی۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو صاحب کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج منظم ہوا تو انہیں یاد آیا کہ اسلام کی خدمت کرکے لوگوں کے غصے کو تحلیل یا کم کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ بھٹو صاحب نے شراب پر پابندی لگادی اور جمعے کو یوم تعطیل قرار دے دیا۔ اس سے قبل وہ ملک کو ’’اسلامی آئین‘‘ بھی مہیا کرچکے تھے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلواچکے تھے۔ بلاشبہ بھٹو صاحب کو اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا مگر وہ قوم کے اجتماعی مذہبی ذہن کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایک ’’سوشلسٹ‘‘ سے اس سے زیادہ کی توقع عبث ہے۔ بھٹو صاحب کے برعکس میاں نواز شریف کے مذہبی پس منظر کی بڑی دھوم ہے۔ جس زمانے میں پیپلز پارٹی کو بڑی برائی اور نواز لیگ کو چھوٹی برائی قرار دیا جارہا تھا اس دور میں دائیں بازو کے نام نہاد صحافی قوم کو تواتر کے ساتھ یاد دلایا کرتے تھے کہ شریف خاندان مذہبی خاندان ہے۔ اس خاندان میں نماز، روزے کی پابندی کی جاتی ہے۔ یادش بخیر ایک زمانے میں میاں صاحب کی ’’مذہبیت‘‘ کا یہ عالم تھا کہ وہ علامہ طاہر القادری سے معصومیت کے ساتھ پوچھا کرتے تھے کہ کہیں آپ امام مہدی تو نہیں؟ نہ صرف یہ بلکہ وہ قادری صاحب کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے کعبے کا طواف کرایا کرتے تھے۔ مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے کہ ہم تمہیں تمہاری نمازوں سے نہیں تمہارے ’’اعمال‘‘ سے پہچانتے ہیں۔ اعمال کا ذکر آتے ہی میاں نواز شریف نہیں ان کے پورے خاندان کی مذہبیت ایک ڈھکوسلہ بن کر سامنے آجاتی ہے۔
میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کی مذہبیت کا بڑا چرچا رہا ہے لیکن میاں محمد شریف کا ذکر خیر کرتے ہوئے معروف صحافی ہارون الرشید نے لکھا ہے۔
’’جسٹس رفیق تارڑ گھریلو محفلوں میں ابا جی کو سکھوں اور قادیانیوں کے لطیفے سنایا کرتے تھے اور یہ سب ’’پارلیمانی زبان‘‘ میں نہ ہوتے تھے‘‘۔(روزنامہ دنیا۔ 16 اپریل 2018)
میاں محمد شریف کی زندگی کا یہ واقعہ مشہور زمانہ ہے کہ آصف نواز جنجوعہ بری فوج کے سربراہ بنے تو میاں نواز شریف کے والد نے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ کھانا کھایا جاچکا تو میاں نواز شریف کے والد نے بی ایم ڈبلیو کی چابی جنرل آصف نواز کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ بھی میرے بیٹوں کی طرح ہو۔ اتفاق سے جنرل آصف نواز نے ’’مذہبی خاندان‘‘ کے سربراہ کی جانب سے ’’رشوت کی پیشکش‘‘ مسترد کردی۔ ظاہر ہے یہ ’’اسلامی رشوت‘‘ ہوگی اور شریف خاندان کے اسلام میں اسلامی رشوت ’’جائز‘‘ ہوگی۔ ایسا نہ ہوتا تو میاں محمد شریف جیسی ’’مذہبی شخصیت‘‘ جو روزے نماز کی سخت پابند تھی آرمی چیف کو بی ایم ڈبلیو جیسی قیمتی کار کیوں پیش کرتی؟ میاں نواز شریف کے والد بزرگوار نے صرف جنرل آصف نواز کو ’’بیٹا‘‘ بنانے کی کوشش نہیں کی، انہیں ہر آرمی چیف کو بیٹا بنانے کا ’’شوق‘‘ تھا۔ چناں چہ جنرل پرویز مشرف آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوئے تو میاں محمد شریف نے انہیں بھی اپنا ’’بیٹا‘‘ بنالیا۔ اس کی تفصیل میاں نواز شریف کے دیرینہ رفیق چودھری شجاعت کی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں موجود ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔ چودھری صاحب لکھتے ہیں۔
’’جنرل پرویز نے مجھے (چودھری شجاعت کو) بتایا کہ 12 اکتوبر کے ٹیک اوور سے پہلے میاں محمد شریف نے مجھے رائے ونڈ بلایا تھا، میاں صاحب نے مجھے وہاں اپنا ’’چوتھا بیٹا‘‘ بنالیا تھا۔ میں نے جنرل پرویز مشرف کو بتایا آپ سے ملاقات کے بعد میاں صاحب نے ہمیں بلا کر کہا تھا ’’میں نے نواز شریف کو کہہ دیا ہے جنرل مشرف کو فوراً فارغ کردو، میں نے اس کی آنکھیں دیکھی ہیں، بڑی خطرناک آنکھیں ہیں‘‘۔(زیرو پوائنٹ۔ جاوید چودھری۔ 20 اپریل 2018)
شریف خاندان باالخصوص ’’خادم اعلیٰ‘‘ شہباز شریف کی ’’قرآن دوستی‘‘ کی مثال بھی چودھری شجاعت کی خود نوشت میں موجود ہے، لکھتے ہیں۔
’’ہم میاں نواز شریف کو (پنجاب کا) وزیراعلیٰ بنانے پر رضا مند ہوگئے۔ میٹنگ کے آخر میں میاں شہباز شریف قرآن مجید لے آئے اور کہا یہ قرآن مجید ضامن ہے۔ ہم آپ سے کوئی وعدہ خلافی نہیں کریں گے۔ (مگر) میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ تمام وعدے توڑ دیے جن کے لیے شہباز شریف قرآن مجید لے کر آئے تھے‘‘۔ (زیرو پوائنٹ۔ جاوید چودھری، روزنامہ ایکسپریس۔ 19 اپریل 2018)
بلاشبہ قرآن مجید شہباز شریف اُٹھا کر لائے تھے مگر انہوں نے وعدوں کے سلسلے میں لفظ ’’ہم‘‘ استعمال کیا تھا۔ یعنی چودھری شجاعت اور ہمنواؤں سے کیے گئے وعدے پورے شریف خاندان کے وعدے تھے اور ان کا ضامن قرآن مجید تھا مگر شریف خاندان نے قرآن مجید کے ساتھ جو ’’اسلامی سلوک‘‘ کیا وہ واضح ہے۔ چلتے چلتے یہ بھی دیکھتے چلیے کہ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان عدلیہ اور اس کے ججوں کے ساتھ کیسا ’’اسلامی رویہ‘‘ اختیار کرتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ میاں صاحب کا تنازع برپا ہوا تو جنرل ایوب کے فرزند گوہر ایوب نے بتایا۔
’’وزیراعظم (میاں نواز شریف) ان سے مشورے کے طالب تھے کہ کس طرح چیف جسٹس کو کم از کم ایک رات کے لیے حوالات میں بند کیا جائے۔ جسٹس خواجہ شریف ابھی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے کہ ان کی خود نوشت شائع ہوئی۔ نہایت فراخ دلی کے ساتھ جج صاحب نے میاں محمد نواز شریف اور جناب شہباز شریف کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ ان تحائف کا ذکر کیا تھا جو ان کے خاندان پہ نچھاور کیے جاتے رہے۔ جسٹس ملک عبدالقیوم کی کہانی سے اخبار کا ہر قاری آشنا ہے کہ کس طرح میاں محمد نواز شریف کے ایک پیغام پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ کسی طرح یہ گفتگو ٹیپ کرلی گئی تھی۔ بعد میں لاکھوں لوگوں نے یہ سُنی۔ شریف خاندان کی طرف سے کبھی اس کی تردید نہ کی گئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کبھی اس پر جسٹس قیوم نے شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ شریف خاندان نے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ جب کبھی شریف خاندان کو اقتدار حاصل ہوا، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کے جج مقرر کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور انہوں نے لگادیا، آخر کیوں؟۔(ناتمام۔ ہارون الرشید۔ روزنامہ دنیا۔ 16 اپریل 2018)
یہ میاں نواز شریف اور شریف خاندان کی ’’روحانی وارداتوں‘‘ ’’اخلاقی گھاتوں‘‘ اور انفرادی و اجتماعی کردار کی ’’چند جھلکیاں‘‘ ہیں ورنہ شریف خاندان کی ’’تاریخ‘‘ اس کی ’’اسلام دوستی‘‘ سے بھری پڑی ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے 1993ء میں اسرائیل اور یاسر عرفات نے اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کیے۔ یہ سمجھوتا فلسطین کاز کے لیے اتنا ہولناک تھا کہ حماس نے نہیں فلسطین کی سابق مجاہد لیلیٰ خالد نے اسے ’’غداری‘‘ قرار دیا۔ ایڈورڈ سعید 20 ویں صدی کے ممتاز دانش ور، یاسر عرفات کے قریبی دوست اور عیسائی تھے، انہوں نے اوسلو امن سمجھوتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یاسر عرفات نے فلسطینیوں کی 50 سالہ جدوجہد کو ملیا میٹ کردیا ہے۔ مگر میاں نواز شریف اور ان کے صحافتی ترجمانوں نے اوسلو سمجھوتے کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا۔ یہاں تک کہ مجیب الرحمن شامی کے ہفت روزہ زندگی میں شائع ہونے والے ایک اشتہار میں اوسلو امن سمجھوتے کو صلح حدیبیہ کے مماثل قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ کشمیر کے سلسلے میں بھی ایسے ہی سمجھوتے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہے کہ بھٹو جیسے سوشلسٹ، سیکولر اور لبرل حکمران نے قوم کو جمعے کی تعطیل کا تحفہ دیا اور ’’اسلام پرست‘‘ میاں نواز شریف نے جمعے کی تعطیل ختم کرکے اتوار کی تعطیل رائج کی اور اس سلسلے میں میاں صاحب کے صحافتی ترجمانوں نے مذہبی دلائل گھڑنے کی ناپاک کوشش کی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سوشلسٹ اور سیکولر بھٹو نے ختم نبوت کے تصور کی حفاظت کی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور ’’اسلام پسند‘‘ نواز شریف نے ختم نبوت کے تصور پر دن کی روشنی میں خوفناک حملہ کیا۔ ساری دنیا جانتی ہے نواز لیگ میاں نواز شریف کے ’’ہاریوں‘‘ کا گروہ ہے اور میاں نواز شریف ان ہاریوں کے ’’سیاسی وڈیرے‘‘ اور ’’مائی باپ ‘‘ ہیں۔ چناں چہ نواز لیگ کا کوئی رہنما میاں نواز شریف کی مرضی اور منظوری کے بغیر ختم نبوت کے تصور پر حملہ نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں اقوام متحدہ کی جانب سے ’’زنا بالرضا‘‘ کو غیر مجرمانہ فعل بنانے کی سازش کی گئی ہے اور میاں نواز شریف کے عہد حکومت میں زنا بالرضا کی تجویز کو ’’قابلِ غور‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کا پورا خاندان اسلام سے ’’محبت‘‘ کی ’’تاریخ‘‘ رکھتا ہے۔ چناں چہ ختم نبوت کے تصور پر حملہ اور زنابالرضا کی تجویز کو ’’قابل غور‘‘ قرار دینا بھی ’’اسلام‘‘ کی ’’خدمت‘‘ ہی ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ ختم نبوت کے تصور پر ’’حملہ‘‘ اور زنا بالرضا پر غور کا ’’وعدہ‘‘ ایک ایسے دور میں کیا گیا جب میاں نواز شریف ’’کمزور‘‘ ہیں۔ میاں نواز شریف کے بقول انہیں فوج اور عدلیہ نے گھیرا ہوا ہے اور ان کا سیاسی مستقبل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میاں صاحب کمزوری کی حالت میں یہ ’’کارنامے‘‘ انجام دے سکتے ہیں تو اگر وہ حقیقی معنوں میں ’’طاقت ور‘‘ ہوگئے تو پھر میاں صاحب ’’اسلام دوستی‘‘ کے کیسے کیسے ’’مظاہرے‘‘ نہیں کریں گے؟؟ خاص طور پر اس صورت میں جب کہ میاں صاحب کے صحافتی وکیل انہیں عہد حاضر کا داراشکوہ قرار دے رہے ہیں اور میاں صاحب امریکا کی آنکھوں کی روشنی اور بھارت کے دل کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔
ہمارے لیے یہ بات بیس پچیس سال سے حیرت کا باعث ہے کہ میاں صاحب اپنی تمام تر مذہب شکنی کے باوجود مذہبی حلقوں میں یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے متاثرین میں بھی ’’پسند‘‘ کیے جاتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ 20 ویں صدی کے مجدّد ہیں اور ان کی برپا کی ہوئی اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی ’’انقلابی‘‘ تنظیمیں ہیں۔ چناں چہ اگر کوئی شخص مولانا کے انقلابی لٹریچر، جمعیت اور جماعت اسلامی کی فکری اور اخلاقی تربیت سے گزرنے کے باوجود نواز لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کی طرف راغب ہوتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص مسجد آئے، عمدہ وضو کرے، خشوع و خضوع سے نماز اادا کرے، دل سے دعا مانگے اور پھر مسجد کے فرش پر کھڑا ہو کر پیشاب کردے۔ اللہ کی پناہ کہاں مولانا مودودی اور ان کا بے مثال لٹریچر اور کہاں میاں نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری یا الطاف حسین؟ کہاں جمعیت اور جماعت اسلامی کا علمی و اخلاقی تربیتی نظام اور کہاں نواز لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کی صحبت؟ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اقبال کے دو شعر یاد آگئے
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الااللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الااللہ
(ختم شد)