کے الیکٹرک کی انتقامی کارروائی

268

کئی ہفتوں سے گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے بلبلاتے اور پریشان حال کراچی کے عوام کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے کراچی پہنچ بجلی کا مسئلہ حل کردیا۔ اس تاثر کو مضبوط اور مستحکم کردیا کہ کراچی میں بجلی کا مسئلہ صرف کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان تنازع تھا۔ وہ اعلان کرکے گئے اور کے الیکٹرک نے لوڈ شیڈنگ میں کمی بھی کردی۔ جماعت اسلامی کی ساری جد وجہد ایک طرف وزیراعظم کا اعلان ایک طرف اور پھر تیس پینتیس برس سے کراچی کے مسائل بڑھانے والے بھی احتجاج کے لیے نکل پڑے۔ الیکٹرانک میڈیا نے وہی کیا جس کی ہدایات اس کے بڑوں کو اوپر سے آئی تھیں۔ اس کے بعد سے کے الیکٹرک کو مزید چھوٹ مل گئی ہے یا پھر اس کے لیے بھی اوپر سے آرڈر آیا تھا اب لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھادیاگیا ہے۔ عوام دوہری مشکل میں آگئے ہیں ایک تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھادی گئی ہے اس پر گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع کردی گئی۔ سی این جی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی اچانک بڑھایاگیا۔ کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی کا طریقہ کار اور کیا معاہدہ ہے اس کا بھی کسی کو علم نہیں۔ سوئی سدرن نے تو وزیراعظم کے حکم پر اتنا ہی کہا تھا کہ15 دن میں اگر پیسے نہیں ملے تو گیس کی فراہمی بند کردیں گے۔ پیسے سے کیا مراد ہے یہ بھی نہیں معلوم کہ واجبات نہ ملنے کی بات کی ہے یا اضافی گیس کی رقم نہ ملنے پر 15 دن میں گیس کی فراہمی بند کردی جائے گی۔ ان میں سے کوئی بھی مطلب نکلتا ہو۔ کراچی کے شہریوں کے لیے 15 روز بڑے مخمصے کے ہیں۔ ان کو بجلی بھی نہیں ملے گی اور گیس بھی اور 15 روز بعد نیا مسئلہ کھڑا ہوگا۔ کے الیکٹرک کے مسئلے پر جب جماعت اسلامی نے دھرنا دیا تھا تو گورنر سندھ نے دھرنے کے چوتھے روز امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم اور ان کی ٹیم سے ملاقات میں یقین دلایا تھا کہ 15 روز میں بہتری آجائے گی۔ کئی ماہ تک 15 روز شروع ہی نہیں ہوسکے اور کے الیکٹرک قابو سے باہر ہوگئی۔ جماعت اسلامی پھر میدان میں آئی احتجاج کیا، دھرنا دیا اور ہڑتال کی۔ جس پر کے الیکٹرک سے مفاد حاصل کرنے والے تمام گروہ اور حصے دار نکل آئے سب نے گیس نہ ملنے کو لوڈ شیڈنگ کا سبب قرار دیا اور بیک وقت سب نے گیس فراہمی کا مطالبہ کیا اور وزیراعظم نے اس قوالی کے جواب میں کسی معاہدے کے بغیر لاکھوں مکعب فیٹ گیس فراہم کرنے کا حکم دیا اور فاتحانہ کراچی سے چلے گئے۔ اہل کراچی اب دوہرا عذاب بھگت رہے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پہلے ایک ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ دن میں تین تین مرتبہ ہورہی تھی اب کے الیکٹرک نے فنی خرابی اور دیگر مسائل کو بہانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ ہفتے کے روز ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے بعد کراچی کے 18 علاقوں میں بجلی غائب کردی گئی۔ کے الیکٹرک مرکز شکایات کے نمبر پر فون کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ اپنا اکاؤنٹ نمبر بتائیں۔ چلیں یہ تو ایک ضرورت ہے۔ لیکن اگر پورا علاقہ بند ہے، دو دو سو فلیٹوں کا جنگل ہے تو بھی اس بات پر اصرار کہ پہلے 13ہندسوں والا اکاؤنٹ نمبر بتائیں۔ جب صارفین نے یہ بتادیا تو جو جواب ملتا ہے وہ وزیراعظم اور گورنر بھی سن لیں۔ کہاجاتا ہے کہ آپ کی شکایت نوٹ کرلی گئی ہے جلد مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔ مسئلہ کیا ہے؟؟ تو جواب ملے گا یہ تو ہم نہیں بتاسکتے۔ سسٹم پر ظاہر نہیں ہورہا ہے ہماری ٹیم کام کررہی ہے صارفین کی جانب سے کام کے مقام کا مطالبہ کرنے پر جواب ملتا ہے کہ ہمارے سسٹم پر وہ مقام بھی نہیں ہے۔ اس پر صارفین کا سوال کہ پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ کوئی فالٹ ہے اور وہاں کوئی ٹیم کام کررہی ہے۔ اس پر انہوں نے بہت سیدھا جواب دیا کہ پھر آپ آئی بی سی چلے جائیں۔ یعنی کے الیکٹرک کے دفتر جائیں۔ اگر ایسے ہی ڈراما کرنا تھا تو 118 کی کیا ضرورت تھی لوگ پہلے بھی بجلی والوں کے دفتر ہی جایا کرتے تھے۔ اس وقت یہ شکایت تھی کہ بجلی والے فون نہیں اٹھاتے۔ اب فون تو اٹھاتے ہیں لیکن انہیں کچھ علم نہیں ہوتا۔ اس ساری لوٹ مار کی ذمے دار پاکستان کی حکومتیں ہیں۔ وہ صارف کے حقوق کی ضامن ہیں نہ کہ ایسی نجی کمپنیوں کے تحفظ کی۔ ایسے ہی لوگوں خو ووٹ دیا تو ایسے ہی کام ہوتے رہیں گے۔بہر حال اس صورتحال کے نتیجے میں پھر 15 دن انتظار کریں شاید کوئی بہتری آجائے۔ ورنہ موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کریں۔