عرب و عجم جنگ کا شوشا

301

دنیا بھر میں جنگوں کی سرپرستی کرنے والے امریکا نے ایک بار پھر عرب و عجم جنگ کو ہوا دینے کا شوشا چھوڑا ہے اور ایران کے خلاف عرب ممالک کو اُکسانے کی کوشش کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پوپیو نے خلیجی ممالک سے کہاہے کہ وہ متحد ہوکر ایران کا مقابلہ کریں۔ ایران نے خطے کو غیر مستحکم کر رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں انہیں وزیر خارجہ نامزد کیا اور قلمدان سنبھالنے کے بعد پہلے دورۂ خلیج میں انہوں نے شوشا چھوڑا ہے۔ اسے شوشا بھی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ امریکیوں کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ مسلمانوں کو کسی نہ کسی نام سے لڑواتے رہو۔ عرب و عجم تعصب کو آواز دی گئی ہے تاکہ مسلمان ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجائیں۔ اس کی تیاری عرصے سے کی جارہی تھی۔ پہلے قطر اور سعودی عرب کا تنازع پیدا کیا گیا۔ پھر قطر کے ساتھ ایک دو ممالک ہوگئے، ایران نے حمایت کردی، 34 ملکی افواج بنادی گئیں جن میں ایران، ترکی، شام کے سوا سارے عرب اسلامی ممالک شامل ہیں۔ کہا تو یہی جاتا رہا ہے کہ یہ فوج کسی کے خلاف نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پھر کس لیے بنائی گئی ہے۔ اس کا اندازہ اب امریکی وزیر خارجہ کے شوشے سے ہوجانا چاہیے کہ انہوں نے عرب ممالک کو ایران کے خلاف اُکسانے کی کوشش کی ہے۔ ایران کی جانب سے یقیناًکئی ممالک میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ کارروائیاں کی جارہی ہیں لیکن یہ کام تو ترکی، سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی کرتے ہیں۔ تو پھر صرف ایران کے خلاف سب کو متحد کیوں کیا جارہاہے۔؟ امریکی وزیر خارجہ کہہ رہے ہیں کہ ایران نے خطے کو غیر مستحکم کر رکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے تیرہ چودہ ممالک میں امریکا براہ راست فوجی کارروائیوں میں مصروف ہے جسے جنگ ہی کہاجاسکتا ہے۔ لیکن تیرہ چودہ ممالک میں بمباری سے لے کر خصوصی مشن اور جاسوسی تک ہر کام کرنے والا ملک ایران کو خطے میں عدم استحکام کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ پہلی ایران عراق جنگ، پھر کویت عرب جنگ اور پھر امریکا عراق جنگ ان تمام جنگوں کا بانی امریکا ہے اور امریکا ہی نے خطے کو عدم استحکام سے دو چار کر رکھا ہے۔ افغانستان پر حملے امریکا نے کیے، عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا جھوٹا دعویٰ امریکا نے ہی پیش کیا۔ عرب ممالک یا اسلامی ممالک عرب و عجم جنگ کے نتائج بھگت چکے ہیں۔ انہیں اب یہ سازش سمجھ لینی چاہیے کہ امریکا صرف مسلمانوں کی طاقت ان کے وسائل اور ان کی ترقی کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ انہیں بار بار لڑایا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کی قوت کمزور ہوجائے۔ اس وقت شام، یمن، عراق، افغانستان، لیبیا، صومالیہ اور دیگر ممالک میں صرف مسلمانوں کی املاک تباہ ہورہی ہیں۔ مسلمانوں کی اموات ہورہی ہیں، بے گھر مسلمان ہورہے ہیں۔ سوڈان میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ اب پھر مسلمانوں کو لڑانے کی تیاری ہے۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو اپنے اختلافات اپنے دائرے میں اپنے اداروں میں حل کرنے کی عادت ہونی چاہیے ورنہ امریکا اور اسرائیل مسلمانوں کو ہڑپ ہی کر جائیں گے۔