حکمرانوں کا معذرت خواہانہ رویہ کب تک

135

ایک مرتبہ پھر کشمیر کا مقدمہ پاکستانی عوام کی عدالت میں پیش کردیاگیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل محترمہ آسیہ اندرابی نے پاکستانی حکمرانوں کے رویے کا شکوہ کیا تھا اب پاکستان میں موجود حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین نے وہی بات دوسرے انداز میں دہرائی ہے۔ ان کا کہناہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے معذرت خواہانہ رویے کے باوجود کشمیر کی جد وجہد آزادی جاری رہے گی۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود جذبہ حریت کم نہیں ہوگا۔ سید صلاح الدین نے اعلان کیا کہ کشمیری بھارت کی غلامی اور تسلط ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ آزادی کشمیر کا مقدر ہے۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو پیغام دیا کہ کشمیر کے عوام پاکستان سے گہری عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کا معذرت خواہانہ رویہ کیوں ہے۔ انہیں کس سے خوف ہے اور کیا یہ رویہ صرف کشمیر کے معاملے میں ہے یا ہر معاملے میں ہے۔ ذرا غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صرف بھارت نہیں۔ امریکا، افغانستان، ایران، برطانیہ، فرانس، حتیٰ کہ بنگلادیش یا کسی بھی ملک کی جانب سے ذرا بھی دباؤ آتا ہے اور پاکستانی حکمران ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ قومی مفاد نام کی کوئی چیز ان کے سامنے نہیں ہوتی۔ آئی ایم ایف عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے قرضے نہ لینا ہی بڑی بات نہیں ہے۔ ان کی جانب سے پنشن، سرکاری ملازمین کی مراعات، اہم اداروں کی نجکاری پر دباؤ اور ٹیکسوں میں اضافے کی ہدایات تو ہمیشہ سے لی جاتی ہیں اور ان پر من و عن عمل بھی کیاجاتا ہے۔ کشمیر اور بنگلا دیش کے حوالے سے تو پاکستانی حکمرانوں کے معذرت خواہانہ رویے کا دنیا نے بار بار تماشا دیکھا ہے۔ جب پاکستان کشمیر میں استصواب کی تاریخ لینے کی پوزیشن میں تھا تو جنرل پرویز چند ڈالروں کے عوض بک گئے۔ جب پاکستان کشمیر میں بھارتی فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کی پوزیشن میں تھا بلکہ عملاً کاٹ دی تھی تو پاکستانی افواج کو کارگل سے اتاردیا گیا تھا۔ اس وقت کی پوزیشن یہ تھی کہ بقول آسیہ اندرابی اس دور میں کشمیری عوام گلیوں میں گھومتے بھارتی فوجیوں سے کہتے نظر آتے کہ بوریا بستر گول کرو ورنہ یہیں مارے جانے کے لیے تیار رہو۔ اور بھارتی فوجیوں کا مورال نہایت تباہ تھا ۔ لیکن اچانک کارگل سے اترنے کا فیصلہ کیا گیا، حکم ماننے والے تو لمحوں میں نیچے آگئے لیکن مجاہدین کا تو کوئی لاسلکی رابطہ نہیں تھا جب تک انہیں اطلاع ملی بھارتی افواج نے کنٹرول سنبھال لیا اور چن چن کر مجاہدین کو شہید کیا۔ یہی معذرت خواہانہ رویہ بنگلادیش کے معاملے میں بھی ہے۔ بنگلادیش میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے والوں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں اور ہمارے حکمران اسے بنگلادیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ منہ چھپانا یا ریت میں سر چھپانا تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے قومی مفاد کا تحفظ یا جرأت مند قیادت نہیں کہاجاسکتا۔ سب کچھ چھوڑیں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو عرصے سے پاکستان کے کنٹرول میں ہے اسے سزا ہوچکی ہے لیکن پتا نہیں کس دباؤ کا انتظار کررہے ہیں کہ اس پر عمل در آمد ہی نہیں ہوپارہا۔ اس معاملے کو محض سست روی یا روایتی غفلت نہیں کہاجاسکتا بلکہ یہ وہی معذرت خواہانہ رویہ ہے جس کی شکایت آسیہ اندرابی کرچکی ہیں اور اب سید صلاح الدین نے کی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جس جد وجہد کو کشمیری اپنے بل پر جاری رکھے ہوئے ہیں اس میں ذرا بھی کامیابی ہوتی ہے تو یہی پاکستانی حکمران اسے اپنی کامیابی اور اپنی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور جب کشمیری مدد اور اخلاقی اور سفارتی تعاون کے لیے پاکستانی حکمرانوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان میں انتخابات کا شور مچاہے اور کئی کئی مرتبہ حکمرانی کرنے والے پھر یہ وعدے کررہے ہیں کہ حکومت ملی تو کشمیر آزاد کرائیں گے۔ مکانات بناکر دیں گے، کچرا صاف کرائیں گے۔ تین تین پانچ پانچ حکومتیں آنے اور جانے کے باوجود یہ کام کیوں نہیں کرسکے۔ بہر حال کشمیریوں نے جد وجہد آزادی کسی کے بل پر شروع نہیں کی تھی وہ اپنے بل پر جد وجہد کررہے ہیں اور اپنے بل پر ہی کشمیر آزاد کرائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی اخلاقی، سفارتی اور ہر طرح کی مدد نہایت ضروری ہے۔ یہ کام نہ کرنے والے حکمران کشمیریوں کے علاوہ اﷲ کے سامنے بھی جوابدہ ہوں گے۔