کچھ یادیں جامعہ کے ’’گاؤن‘‘ کی

745

لو۔۔۔ آج بیٹھے بٹھائے فرقان یاد آگیا۔ فرقان نہ جانے اب کہاں ہوگا؟ جب وہ آخری بار ملا تھا تب وہ جامعہ کراچی میں ہمارا ہم جماعت تھا۔ شعبہ ریاضی کے ہنس مُکھ، ہنسوڑ، شوخ و شنگ بلکہ شریر لڑکے لڑکیوں کے بیچ فرقان انتہائی سنجیدہ اور بُرد بار طالب علم تھا۔ لڑکے ہی نہیں، بعضی لڑکیاں بھی اتنی شریر ہوتی تھیں کہ اب اُن کو یاد کریں تو اُن سے پہلے جون ؔ ایلیا یاد آجاتے ہیں:
بچپنے میں تھی وہ شریر بہت
اب تو شیطان ہو گئی ہو گی
فرقان ہر وقت سیاہ گاؤن میں ملبوس نظر آتا۔ کلاس کے اندر بھی اور کلاس کے باہر بھی۔ وہ اپنے ساتھی طلبہ و طالبات کو بھی ہر وقت تلقین کرتا رہتا تھا کہ گاؤن لازماً پہننا چاہیے۔ یہ ہماری شناخت ہے، ہمارا وقار ہے، ہماری جامعہ کی شان ہے۔ ارے کم بختو! اب گاؤن نہیں پہنو گے تو کب گاؤن پہنوگے؟ گاؤن کے موضوع پر ہر وقت ہونے والی اُس کی لمبی لمبی تقریروں سے عاجز آکر شریر لڑکے لڑکیوں نے فرقان کا نام ہی ’’فرقاؤن‘‘ رکھ چھوڑا۔
سیاہ گاؤن جامعہ کراچی کے طلبہ و طالبات کا یونیفارم تھا۔ سبز ریشمی گاؤن اساتذہ کی شناخت تھا۔ اساتذہ تو جب بھی کلاس لینے کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکلتے، سبز گاؤن لازماً زیب تن کر لیتے تھے۔ مگر طلبہ و طالبات کو یہ سیاہ گاؤن ایک جھنجھٹ ہی محسوس ہوتا تھا۔ برقع پوش لڑکیاں تو اپنے گاؤن میں ٹِچ بٹن لگا کر اسے اپنے عبایا کے طور پر استعمال کر لیتیں اور اوپر نقاب اوڑھ لیتیں۔ جو لڑکیاں برقع پوش نہیں تھیں وہ بھی اکثر کھلے گاؤن میں اپنی دونوں بانہیں ڈالے تیز تیز چلتی ہوئی نظر آتیں۔ آگے آگے خود بھاگی جارہی ہیں، پیچھے پیچھے اُن کا گاؤن اُڑتا ہوا اُن کا پیچھا کرتا چلا آرہا ہے۔ البتہ لڑکے ’’عجیب بادشاہ‘‘ تھے۔ (یہ قیصر کا تکیۂ کلام تھا: ’’تَئیں عجیب باسّا ہووے‘‘) گاؤن پہنا، پہنا۔ نہ پہنا، نہ پہنا۔ جامعہ کے قواعد کی رُو سے گاؤن خریدنا اور پہننا لازمی تھا۔ جامعہ کی بُک شاپ سے مل جاتا تھا۔ بعض طلبہ و طالبات کو اپنے بڑے بھائیوں یا بڑی بہنوں سے ورثے میں بھی مل جاتا تھا۔ جب کوئی نیا سیشن شروع ہوتا تو اساتذہ کی طرف سے ہر کلاس میں گاؤن پہننے کے لیے سختی کی جاتی تھی۔ ایسے میں اپنے شعبے کے یا دوسرے شعبوں کے وہ دوست کام آتے تھے جن کا وہ پریڈ خالی ہوتا تھا۔ وہ شعبے کی منڈیروں پر یا کینٹین میں کتابوں کے ساتھ ساتھ گاؤن سنبھالے بیٹھے ہوتے تھے۔ اُن سے لپک کر گاؤن چھینا اور دوڑ کر کلاس میں پہنچے تاکہ حاضری کے لیے نام پکارے جانے پر بروقت ’’یس سر!‘‘ کہہ سکیں۔ بعض اساتذہ بعد میں حاضری لگاتے ہی نہیں تھے۔ سیشن کی ابتدا میں کلاس کے سو فی صد طلبہ و طالبات گاؤن میں ملبوس بیٹھے نظرآتے۔ بعد کو جب سختی اتنی نہ رہتی تو پہلے اِکّا دُکّا لڑکے بے گاؤن کے نظر آتے پھر یہ وبا پھیلتی ہی چلی جاتی۔
علمِ مثلث (Triginometry) کے اُستاد پرویز قمر صاحب (جو پورے شعبے کے اساتذہ اور طلبہ میں ’’پی کیو‘‘ کہلاتے تھے) گاؤن پہننے کی پابندی بڑی سختی سے کرواتے تھے۔ وہ ایسے طلبہ و طالبات کو کلاس میں گھسنے ہی نہیں دیتے تھے جو گاؤن نہ پہنے ہوئے ہوں۔ سر کلاس میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے چن چن کر ان لوگوں کو نکال باہر کرتے جو گاؤن سے بے نیاز بیٹھے ہوں۔ کلاس شروع ہونے کے بعد بھی اگر کہیں سے کوئی گاؤن پہن کر آجائے تو بیٹھنے کی اجازت تھی۔ ایک بار اُن کی کلاس میں یہ لطیفہ ہوا کہ دولڑکے جو ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اُن میں سے کسی ایک لڑکے سے بھی، سَر کوئی سوال کرتے تو جواب دیتے وقت دوسرا بھی ساتھ ساتھ اُٹھ جاتا اور احتراماً ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا۔ سَرنے جب دو تین دفعہ یہی منظر دیکھا تو کہا:
’’برخوردار! آپس میں ایسی بھی کیا محبت کہ تم دونوں ساتھ ساتھ اُٹھک بیٹھک کر رہے ہو۔ اب میں جس سے سوال کروں صرف وہی کھڑا ہو‘‘۔
تب سر کو پتا چلا کہ آپس میں محبت ہی نہیں، مجبوری بھی تھی۔ دونوں ایک ہی گاؤن میں گھسے ہوئے تھے۔ گاؤن کی دائیں آستین میں دائیں طرف والے لڑکے نے اپنا دایاں ہاتھ ڈال رکھا تھا اور بائیں آستین میں بائیں طرف والے لڑکے نے اپنا بایاں ہاتھ ڈال لیا تھا۔ کلاس میں بیٹھنے کا قانونی تقاضا تو پورا کرنا تھانا!
داخلے کے دنوں میں ہر طرف گاؤن کی بہار آجاتی۔ مختلف تنظیموں کے کارکنان گاؤن پہنے، اپنی اپنی تنظیموں کے بیج سینوں پر آویزاں کیے طلبہ و طالبات کی رہنمائی کے لیے بھاگتے دوڑتے نظر آتے۔ انجمن طلبہ کے انتخابات کے زمانے میں بھی جسے دیکھیے گاؤن پہنے نظر آتا تھا۔ انتخابی اُمیدوار کا تو گاؤن پہننا لازمی تھا۔ انتخابی مہم کے زمانے میں اُمیدوار کو اجازت تھی کہ وہ کسی بھی کلاس میں استاد سے اجازت لے کر داخل ہو اور تین چار منٹ میں اپنا مافی الضمیر ادا کرکے نکل جائے۔ تقریر کے دوران میں انتخابی کارکنان کلاس میں ہینڈبِل وغیرہ بانٹتے پھرتے تھے۔ ان سب کا گاؤن میں ہونا لازمی تھا۔ کوئی امیدوار گاؤن نہ پہنے ہوتا تو یہ اس کے لیے منفی بات بن جاتی۔ پُربہار زمانوں میں جامعہ کراچی کا جو منظر نظر آیا کرتا تھا اُس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہمارے زمانے کے کارٹونسٹ حضرات کو جب کبھی جامعہ کراچی کے طلبہ و طالبات دکھانے ہوتے تو وہ ان کی جگہ ’’پینگوئین‘‘ بنایا کرتے تھے۔
اب تو ہمیں نہیں معلوم کہ جامعہ کراچی کے طلبہ و طالبات میں ’’گاؤن پوشی‘‘ کی کیا کیفیت ہے، مگر ہمارے زمانے میں تو گاؤن بڑی کثیر المقاصد اور کثیر الاستعمال شے تھی۔ وضو کرنے یا تھکن سے نڈھال ہو کر جامعہ کے جابجا بنے ہوئے لان میں لگے ہوئے نلکوں سے ہاتھ منہ دھونے کے بعد، ہاتھ منہ اسی سے پونچھا جاتا۔ ٹک شاپ سے لائے ہوئے مشروبات و ماکولات کو اگر شعبے کی گھاس پر بیٹھ کر کھانا ہوتا تو اسے دسترخوان بنا لیا جاتا۔ کینٹین میں لوہے کی کرسیوں پر بیٹھنا پڑتا تو گاؤن کو تہ کرکے اس کا گدّا سا بنا لیا جاتا اور تشریف تلے دبا لیا جاتا۔ کلاس میں کسی سوال کا جواب نہ آتا تو اسی کے پلو سے عرقِ ندامت صاف کیا جاتا۔ (عینک کے شیشے بھی)۔ سخت سردی کے زمانے میں جامعہ کے کھلے میدانوں میں کوئٹہ سے آنے والی ہوا جب شمشیر کی تیزی دکھاتی تو گاؤن ہی کو مفلر یا اسکارف کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ تیز گرمیوں میں جب لُو چلنے لگتی تو اسے کولر کے پانی سے بھگو کر برساتی کی طرح اوڑھ لیا جاتا۔ ایک بار علم الاحصاء (Calculus) کے پرچے میں ایک صاحب اپنی سفید پتلون کی ران پر تمام فارمولے لکھ لائے۔ ٹسٹ کے دوران میں گاؤن ہی تھا جو نگراں ممتحن سے اُن کی ران پر لکھے فارمولوں کی ’’ستر پوشی‘‘ کرتا رہا۔ کانووکیشن گراؤنڈ میں ہونے والی لڑائی اور مار کُٹائی کے بعد جب توقیر بھائی بھاگ کر شعبے کی پُرامن فضا میں پناہ لینے آئے تو اسی سے اُن کی ’’گردِ سفر‘‘ جھاڑی گئی۔ غرض یہ کہ گاؤن بڑی کام کی چیز تھی۔
’’فرقاؤن‘‘ کی تحقیق کے مطابق مغرب نے گاؤن کا تصورمسلم ہسپانیہ کی جامعات سے اخذ کیا۔ وہاں کے طلبہ عبا پہنتے تھے اور اساتذہ جبہ و دستار۔ جب طلبہ کا ’’کانووکیشن‘‘ ہوتا تھا تو فارغ التحصیل ہو جانے والے طالب علموں کی بھی ’’دستار بندی‘‘ کر دی جاتی تھی۔ مغرب اپنے آپ کو جبہ و دستار کے بلند معیار تک تو نہ پہنچا سکا، البتہ ’’کانووکیشن‘‘ کے موقع پر آج بھی ہُڈ اور گاؤن پہننے کی روایت برقرار ہے۔ پہلے دستار کا شملہ لٹکتا تھا، اب ہڈ (Hood) کا پھندنا لٹکتا ہے۔