اقامہ رحمت سے زحمت تک

233

خود حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے بقول پاناما سے اقامہ کیا نکلا گویا کہ چہار سو اقاموں کی بہار آگئی۔ بات شروع ہوئی تھی پاناما لیکس سے اور جب آگے چلی تو اس کے بطن سے اقامے نکل آئے۔ اقامہ چوں کہ عربی کا لفظ ہے اور اس کا تعلق بھی عرب ملکوں سے ہے اس لیے اقامہ زدگان نے اسے خیر وبرکت کا باعث قرار دینے کی کوشش کی۔ اسے اپنے لیے سعادت ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اپنے چنیدہ اور خوش قسمت ہونے کا تاثر دینے لگے۔ بالخصوص وزیر داخلہ احسن اقبال جن سے ایک اقامہ برآمد ہوا ہے اپنی خوش بختی پر نازاں ہیں کہ انہیں قدرت نے سعودی عرب کے اقامے کی سعادت عطا فرمائی ہے۔ اقامہ زدگان کا بس چلے تو وہ اسے حج یا عمرے کی طرح کی سعادت بنا کر پیش کریں۔ معاملہ چوں کہ عدالتی بن گیا اور عدالت نے اس اصطلاح کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقات کیں اس لیے اقامہ زیادہ پر تقدس ثابت نہیں ہوسکا۔ جس کاغذ کو سعادت اور خوش بختی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہ بدبختی کی علامت بنتا چلا گیا۔ عین ممکن ہے ایک زمانے تک اقامے کی پرچی ان کے لیے خوش بختی کا سندیسہ رہی ہو اور اس پرچی کی بنیاد پر سیاسی شخصیات نے عرب ملکوں میں کیا کیا سہولتیں، مراعات اور رعایتیں حاصل کی ہوں مگر وہ دن پیچھے رہ گئے ہیں اور مدتوں رحمت رہنے والی یہ پرچی اب ان کے لیے زحمت بنتی چلی جا رہی ہے۔ یوں اقامہ پٹاری کا ایسا سانپ ہے جو خود سپیروں کو کھانے لگا ہے۔ اس کا تازہ شکار وزیر خارجہ خواجہ آصف بن گئے جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل بینچ نے غیر ملکی اقامہ رکھنے اور اسے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر تاحیات نا اہل قراردے دیا۔ متحدہ عرب امارات حکومت کے اس اقامے کے تحت خواجہ آصف وہاں ایک کمپنی میں سولہ لاکھ ماہانہ پر ملازمت کر رہے تھے۔
واقفان حال اقامے کی جو تعریف بیان کرتے ہیں اس کے مطابق یہ کسی ملک کا ویزہ نہیں بلکہ ورک پرمٹ ہوتا ہے۔ جس کے تحت کسی بھی ملک کا شہری وہاں ملازمت کا اہل قرار پاتا ہے۔ خواجہ آصف کا اقامہ محض کاغذ کا ایک پرزہ نہیں تھا بلکہ وہ اس کے تحت ایک کمپنی میں سولہ لاکھ کی ملازمت بھی کر رہے تھے۔ اپنے خلاف دائر رٹ کی سماعت کے کسی بھی مرحلے میں انہوں نے اقامہ یافتہ ہونے اور اس کے تحت تنخواہ لینے کی تردید نہیں کی۔ خواجہ آصف پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور وزیر خارجہ کسی ملک کا بیرونی دنیا میں چہرہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے ملک کا وکیل ہوتا ہے اور خارجہ امور میں اس کی رائے کو قطعی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کسی ملک کا وزیر خارجہ کسی دوسرے ملک میں تنخواہ لے تو اس پر اُنگلی اُٹھنا فطری بات ہے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ ملک کے رازوں کا امین ہوتا ہے۔ اس کی رسائی وہاں تک ہوتی ہے جہاں تک پہنچنے کی کوشش اور تمنا میں ملکی اور غیر ملکی طاقتیں ہلکان ہوتی رہتی ہیں اور انہیں بے تحاشا وسائل خرچ کرکے یہ راز معلوم کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ان عہدوں کی اہمیت اور حساسیت دوچند ہوجاتی ہے۔ جو اس وقت کئی عالمی طاقتوں کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔ ایک بڑی عالمی طاقت اس کے درپہ آزار ہے اور ایک علاقائی دشمن ہمسائیگی کے باجود اس کا تیا پانچہ کرنے کی ہمہ وقت تدابیر کرتا رہتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ جو لوگ پاکستان پر حکمرانی کا شوق رکھتے ہیں اور عوامی سیاست کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے معاملات کے دودھ میں مینگنی ڈالنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ کسی ملک کا وزیر خارجہ چند بڑے عہدوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ اس قدر بڑے عہدے کے حامل لوگوں کو اقاموں اور نوکریوں کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟۔ دنیا میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک کے عوامی راہنما اور حکومتی مناصب پر براجمان شخصیات دوسرے ملکوں میں ورک پرمٹ بھی رکھتے ہوں اور وہاں کمپنیوں سے تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہوں۔ اگر دنیا میں کہیں ایسی مثال ہے تو پھر پاکستان میں بھی یہ معاملہ نظر انداز کیا جا سکتا ہے مگر دنیا میں ڈھونڈے سے بھی اس کی مثال ملنا مشکل ہوگا۔ خواجہ آصف کی طرف سے اقامے اور تنخواہ کی کوئی ٹھوس وضاحت عوام میں سامنے نہیں آئی۔ ظاہر ہے عدالت میں بھی وہ اس معاملے کو ظاہر نہ کرنے کی معقول وجہ نہیں بتا سکے ہوں گے۔
خواجہ آصف سے پہلے ایسے ہی کیس میں میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین بھی تاحیات نااہلی کا ذائقہ چکھ چکے ہیں۔ یہ سلسلہ یہیں رکنے والا نہیں۔ عوامی نمائندوں کے معاملات کو عدالتوں میں حل ہونے پر خود عدالت نے اس فیصلے میں بھی اچھا نہیں کہا بلکہ کسی حد تک اس پر تاسف کا اظہار کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ عوامی نمائندوں سے حق نمائندگی چھیننے کا اختیار بھی عوام کا ہونا چاہیے مگر سیاست دان خود اپنے معاملات کو غیر شفاف بناکر اور پارلیمنٹ کو اس معاملے میں ربر اسٹیمپ بنا کر عدالتوں کو موقع فراہم کرتے ہیں۔ اچھا ہو کہ سیاست دان اگر اپنے ملک میں عوامی خدمت کا شوق رکھتے ہیں تو وہ اپنا دامن اقاموں اور آفشور کمپنیوں اور دوسری کاروباری سرگرمیوں سے بچائے رکھیں۔ آئیڈیل اور خالص برطانوی طرز کی جمہوریت چاہنے والوں کو ان معاملات میں جمہوری اصولوں اور روایات کی پیروی کرنا چاہیے۔